غزل برائے اصلاح

عشق سے پہلے ہوئے دوچار ہم
اور پھر کہنے لگے اشعار ہم

تجھ کو بھی ہونے نہیں دیتے خبر
ایسے کرتے ہیں ترا دیدار ہم

قدر کرتے ہیں ہماری،غیر بھی
پیٹھ پر کرتے نہیں ہیں وار ہم

اُس طرف سے تو اگر آواز دے
آگ کا دریا بھی کر لیں پار ہم

پاس ہوتا ہے ہمارے بس قلم
تیر رکھتے ہیں نہ ہی تلوار ہم

عشق نے ہم کو بنایا کام کا
ورنہ ہوتے آدمی بے کار ہم

شاعری کا سکھ کہاں ملتا ہمیں
ہجر کے سہتے نہ جو آزار ہم

ہم کو مشکل لگتی ہیں آسانیاں
راستہ چنتے نہیں ہموار ہم

شعبدہ بازوں کا یہ احسان ہے
کھا کے دھوکے ہو گئے ہشیار ہم

ساری دنیا ہی نظر آئے حسیں
حسن کے جب سے ہوئے بیمار ہم

کاش دہرائے کہانی وقت پھر
اور نبھائیں قیس کا کردار ہم
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے کوئی بڑی خامی نظر نہیں آتی
تیر رکھتے ہیں نہ ہی تلوار ہم
'نہ ہی' رواں نہیں لگتا، اسے یوں کہو
تیر ہی رکھتے ہیں. نے تلوار ہم

ساری دنیا ہی نظر آئے حسیں
حسن کے جب سے ہوئے بیمار ہم
نظر آئے' درست صیغہ نہیں لگتا، نظر آنے لگی' بہتر تھا اسے لانے کی کوشش کرو
 
اچھی غزل ہے کوئی بڑی خامی نظر نہیں آتی
تیر رکھتے ہیں نہ ہی تلوار ہم
'نہ ہی' رواں نہیں لگتا، اسے یوں کہو
تیر ہی رکھتے ہیں. نے تلوار ہم

ساری دنیا ہی نظر آئے حسیں
حسن کے جب سے ہوئے بیمار ہم
نظر آئے' درست صیغہ نہیں لگتا، نظر آنے لگی' بہتر تھا اسے لانے کی کوشش کرو

السلام علیکم ! سر
بہت بہت شکریہ بہت نوازش
جزاک اللہ
جن اشعار کے بارے میں آپ نے نشاندہی کی ہے آپ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ۔اس طرح کہنے کوشش کرتا ہوں۔
ایک بار پھر سے شکریہ۔
 
Top