محمد فائق
محفلین
نہیں کر پائے میلا نفرت و کینہ مرے من کو
یہی تو بات کرتی ہے پریشاں میرے دشمن کو
نئے اک زاویے سے یاد کرتا ہوں تجھے ہر دن
رکھا ہے اس طرح تازہ تری یادوں کے گلشن کو
حقیقت نے اچانک بیچ میں آکر جگا ڈالا
میں سپنے میں سنورتا دیکھ نے والا تھا جیون کو
ہماری گمرہی کا کیا سب تھا تب سمجھ آیا
جو دیکھا ایک پیمانے سےرہبر اور رہزن کو
کہیں کا بھی نہیں چھوڑا ہمیں آشفتہ حالی نے
مکاں ہوتے ہوئے بھی ہم ترستے ہیں نشیمن کو
ہےدنیا ترجمانِ بے وفائی، وقت پڑنے پر
یہ دو گز کی جگہ تک بھی نہیں دیتی ہے مدفن کو
جوانی بوجھ سی محسوس ہونے لگتی ہے اس دم
کبھی جب یاد کرتا ہوں میں فائق اپنے بچپن کو
یہی تو بات کرتی ہے پریشاں میرے دشمن کو
نئے اک زاویے سے یاد کرتا ہوں تجھے ہر دن
رکھا ہے اس طرح تازہ تری یادوں کے گلشن کو
حقیقت نے اچانک بیچ میں آکر جگا ڈالا
میں سپنے میں سنورتا دیکھ نے والا تھا جیون کو
ہماری گمرہی کا کیا سب تھا تب سمجھ آیا
جو دیکھا ایک پیمانے سےرہبر اور رہزن کو
کہیں کا بھی نہیں چھوڑا ہمیں آشفتہ حالی نے
مکاں ہوتے ہوئے بھی ہم ترستے ہیں نشیمن کو
ہےدنیا ترجمانِ بے وفائی، وقت پڑنے پر
یہ دو گز کی جگہ تک بھی نہیں دیتی ہے مدفن کو
جوانی بوجھ سی محسوس ہونے لگتی ہے اس دم
کبھی جب یاد کرتا ہوں میں فائق اپنے بچپن کو