فیضان قیصر
محفلین
یہ کب تک کہاں تک تُو اے دل سنے گا
فلاں سوچے گا کیا فلاں کیا کہے گا
سنو تم مجھے یوں اکیلا نہ چھوڑو
مجھے ڈر ہے مجھکو بہت ڈر لگے گا
مجھے تم سمجھنا اگر چاہتے ہو
بہت دور تک مجھ میں آنا پڑے گا
یہ دل بن تمھارے لگا تو ہوا ہے
مگر دیکھنا ہے کہ کب تک لگے گا
میں سب کو بھلا کے بھی زندہ رہوں گا
اکیلے یہ جیون مگر کٹ سکے گا؟
پسِ ذات مجھ کو کبھی کھوجنا تم
تمھیں ایک سہما سا بچہ ملے گا
جہاں جھوٹ بکتا ہو فیضان صاحب
وہاں سچ کا سودا کہاں سے بکے گا
فلاں سوچے گا کیا فلاں کیا کہے گا
سنو تم مجھے یوں اکیلا نہ چھوڑو
مجھے ڈر ہے مجھکو بہت ڈر لگے گا
مجھے تم سمجھنا اگر چاہتے ہو
بہت دور تک مجھ میں آنا پڑے گا
یہ دل بن تمھارے لگا تو ہوا ہے
مگر دیکھنا ہے کہ کب تک لگے گا
میں سب کو بھلا کے بھی زندہ رہوں گا
اکیلے یہ جیون مگر کٹ سکے گا؟
پسِ ذات مجھ کو کبھی کھوجنا تم
تمھیں ایک سہما سا بچہ ملے گا
جہاں جھوٹ بکتا ہو فیضان صاحب
وہاں سچ کا سودا کہاں سے بکے گا