غزل برائے اصلاح

سعید عاصم صاحب کی غزل کی زمین میں

فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
دھیان سے توڑ ترے پار بھی ہو سکتا ہے
پھول کے ساتھ کوئی خار بھی ہو سکتا ہے

لوٹنے پہ ترے لوٹے ہیں پرانے جذبات
پیار تو پیار ہے دو بار بھی ہو سکتا ہے

گر بھرے شہر میں ہو ایک اکیلا انسان
اپنوں کے درد سے دو چار بھی ہو سکتا ہے

میں اگرچے کوئی دل پھینک نہیں پر تیری
ان اداؤں سے مجھے پیار بھی ہو سکتا ہے

خطرہ محسوس ہو عمران تو قرآں پڑھنا
راہ میں شام سا بازار بھی ہو سکتا ہے

سر الف عین
سر عظیم
برائے مہربانی اصلاح فرما دیجئے۔۔۔
شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
پھول بھی ترے پار ہو سکتا ہے؟ مطلع کا بیانیہ ذرا گڑبڑا گیا ہے
لوٹنے پہ ترے لوٹے ہیں پرانے جذبات
پیار تو پیار ہے دو بار بھی ہو سکتا ہے
.. پہ کی جگہ پر، درست

گر بھرے شہر میں ہو ایک اکیلا انسان
اپنوں کے درد سے دو چار بھی ہو سکتا ہے
.. ٹھیک

میں اگرچے کوئی دل پھینک نہیں پر تیری
ان اداؤں سے مجھے پیار بھی ہو سکتا ہے
.. پر کی جگہ مگر باندھیں

خطرہ محسوس ہو عمران تو قرآں پڑھنا
راہ میں شام سا بازار بھی ہو سکتا ہے
.. خطرہ کی ہ کا اسقاط اچھا نہیں
ڈر جو محسوس ہو عمران تو قرآن پڑھو
بہتر ہو گا
 
پھول بھی ترے پار ہو سکتا ہے؟ مطلع کا بیانیہ ذرا گڑبڑا گیا ہے
لوٹنے پہ ترے لوٹے ہیں پرانے جذبات
پیار تو پیار ہے دو بار بھی ہو سکتا ہے
.. پہ کی جگہ پر، درست

گر بھرے شہر میں ہو ایک اکیلا انسان
اپنوں کے درد سے دو چار بھی ہو سکتا ہے
.. ٹھیک

میں اگرچے کوئی دل پھینک نہیں پر تیری
ان اداؤں سے مجھے پیار بھی ہو سکتا ہے
.. پر کی جگہ مگر باندھیں

خطرہ محسوس ہو عمران تو قرآں پڑھنا
راہ میں شام سا بازار بھی ہو سکتا ہے
.. خطرہ کی ہ کا اسقاط اچھا نہیں
ڈر جو محسوس ہو عمران تو قرآن پڑھو
بہتر ہو گا
مطلع میں گرہ لگائی ہے
دھیان سے توڑ ترے پار بھی ہو سکتا ہے
آئینہ ٹوٹ کے تلوار بھی ہو سکتا ہے

لوٹنے پر ترے لوٹے ہیں پرانے جذبات
پیار تو پیار ہے دو بار بھی ہو سکتا ہے

گر بھرے شہر میں ہو ایک اکیلا انسان
اپنوں کے درد سے دو چار بھی ہو سکتا ہے

میں نہیں ہوں کوئی دل پھینک مگر دیکھ ، تری
ان اداؤں سے مجھے پیار بھی ہو سکتا ہے

ڈر جو محسوس ہو عمران تو قرآن پڑھو
راہ میں شام سا بازار بھی ہو سکتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
مطلع اب بھی واضح نہیں، کیا پاد ہو سکتا ہے ؟ کم از کم پہلے مصرع میں 'یہ' کی کمی ہے
باقی اشعار تو میرے مشوروں کے مطابق ہی ہیں
 
مطلع اب بھی واضح نہیں، کیا پاد ہو سکتا ہے ؟ کم از کم پہلے مصرع میں 'یہ' کی کمی ہے
باقی اشعار تو میرے مشوروں کے مطابق ہی ہیں
جی سر پہلے مصرعے میں تھوڑی تبدیلی کی ہے۔

دھیان سے توڑ یہ دل پار بھی ہو سکتا ہے
یا
توڑ مت ، جسم کے دل پار بھی ہو سکتا ہے
یا
دل کے ٹوٹا ہوا دل پار بھی ہو سکتا ہے
آئینہ ٹوٹ کے تلوار بھی ہو سکتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
عجز بیان کا شکار ہے مصرع، یہ مفہوم کہ توڑنے سے پہلے یہ سوچ لو کہ یہ آئینہ یا آئینے کا ٹکڑا چُب کر دل کے پار بھی ہو سکتا ہے، اس چھوٹے سے مصرع میں سمانا مشکل ہے
 
عجز بیان کا شکار ہے مصرع، یہ مفہوم کہ توڑنے سے پہلے یہ سوچ لو کہ یہ آئینہ یا آئینے کا ٹکڑا چُب کر دل کے پار بھی ہو سکتا ہے، اس چھوٹے سے مصرع میں سمانا مشکل ہے

سر یہ مطلع کیسا رہے گا

عشق تو باعثِ آزار بھی ہو سکتا ہے
پھول کے ساتھ کوئی خار بھی ہو سکتا ہے
 
Top