غزل برائے اصلاح

akhtarwaseem

محفلین
میں اِس طرح نصیب کے ہاتھوں اُجڑ گیا
جس نے مُجھے قریب سے دیکھا وہ ڈر گیا

تُو نے یہ کس لڑائی میں مجھ کو لڑا دیا
تجھ کو قبا کی فِکر ہے میرا تو سر گیا

اے زندگی مزاج میں یہ تلخیاں ہیں کیوں
جو بھی تِری پناہ میں آیا وہ مر گیا

مُڑنا تھا جس مقام سے گھر کے لیئے مجھے
شاید میں اُس مقام سے آ گے گزر گیا

جنگ و جدل میں ضابطے پیشِ نظر کہاں
میرے مُقابلے میں جو آیا میں لڑ گیا

فکرِ مُعاش نے مِری نیندیں اُجاڑ دیں
خوابوں کا جو بُخار تھا جلدی اُتر گیا

کتنی حلاوتیں تِرے لہجے میں تھیں کبھی
اب تو تِری زُبان کا شیریں اثر گیا
 
مکرمی اختر صاحب، آداب۔

آپ سے پہلی بار شرف تخاطب حاصل ہورہا ہے، امید ہے آئندہ بھی رہے گا۔

اب تک غالبا دیکھ ہی لیا ہوگا کہ اساتذہ کرام نے جناب ارشد صاحب کی بات سے اتفاق کیا ہے۔ مطلع کے قوافی اصولا درست نہیں (یہ الگ بات کہ بعینہ یہی گناہ اس عاجز سے بھی چند دن قبل سرزد ہوا، جس پر اساتذہ نے کان بھی مروڑے :) )

خیر، مطلعے کا مسئلہ تو اتنا سنگیں نہیں۔ آپ اجڑ کو بکھر سے بدل دیں تب بھی مفہوم کم و بیش وہی رہے گا۔ ذیل کے شعر کا آپ کو کچھ کرنا پڑے گا۔

جنگ و جدل میں ضابطے پیشِ نظر کہاں
میرے مُقابلے میں جو آیا میں لڑ گیا

اسکے علاوہ مندرجہ ذیل شعر دولخت محسوس ہوتا ہے، پہلے مصرعے کا دوسرے سے ربط نہیں بن پارہا۔ مزاج کی تلخی سے موت کا کیا تعلق ہے؟

اے زندگی مزاج میں یہ تلخیاں ہیں کیوں
جو بھی تِری پناہ میں آیا وہ مر گیا

اس کے علاوہ باقی اشعار مجھے تو اچھے لگے سو داد قبول کریں۔ بلکہ میں تو آپ کی غزل کی عمومی پختگی دیکھ کر یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ قافیے کی غلطی آپ سے کیسے سرزد ہوگئی؟

امید ہے آپ نے میری باتوں کا برا نہیں مانا ہوگا۔ لکھتے رہیئے اور محفل کو آباد رکھئے۔

دعاگو،
راحل
 

akhtarwaseem

محفلین
ارشد صاحب اوراحسن صاحب
السلام علیکم
آپ دونوں اصحاب کا بے حد شکریہ کے آپ نے اس ناچیز کے لیئے
وقت نکالا۔ آپ حضرات نے جن مسائل کی نشاندی کی ہے، میرا اُس
طرف دھیان نہیں تھا، احسن بھائی نے تو قافیے کا مسلہ حل کر ہی دیا،
میں دوسرے شعر کو بھی دُرست کرکے پھر سے آپ کی خدمت میں پیش
ہوں گا۔ ایک بار پھر سے بہت بہت شکریہ۔
 

akhtarwaseem

محفلین
جناب احسن صاحب، آداب

آپ نے اور ارشد چوہدری صاحب نے قافیے کے جس مسلے کی نشاندی کی تھی،
اُسے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔

میں اِس طرح نصیب کے ہاتھوں اُجڑ گیا
جس نے مُجھے قریب سے دیکھا وہ ڈر گیا
مطلع تو آپ نے ہی دُرست کروا دیا تھا جسکی موجودہ شکل یہ رہی:

میں اس طرح نصیب کے ہاتھوں بکھر گیا
جس نے مجھے قریب سے دیکھا وہ ڈر گیا

اس کے علاوہ آپ نے درج زیل اشعار کے بارے بھی اپنے تحفظات کا
اظہار فرمایا تھا:

اے زندگی مزاج میں یہ تلخیاں ہیں کیوں
جو بھی تِری پناہ میں آیا وہ مر گیا

جنگ و جدل میں ضابطے پیشِ نظر کہاں
میرے مُقابلے میں جو آیا میں لڑ گیا

میں نے ان دو اشعار کو غزل بدر کر کے دو نئے اشعار کو شاملِ غزل کیا ہے:

وہ جو کبھی بھی موج میں سرکش نہیں ہوا
یہ سوچنا ہے دریا وہ کیسے بپھر گیا

اک میں جسے جدائی نے بنجر بنا دیا
اک تُو کہ جو فِراق میں اتنا نکھر گیا

ان اشعار کے بارے بھی رہنمائی عطا ہو جائے تو بڑی عنایت ہو گی۔

شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
اب قوافی درست ہو گئے تو غزل اصلاح کے لیے قبول کی جا سکتی ہے کہ اب محض بہتری کے مشورے ہی ہیں، عروضی مسئلہ نہیں
مطلع درست تو ہے لیکن ایسی کیا بات ہو گئی کہ لوگ ڈرنے لگے؟ یہ بات واضح نہیں
تُو نے یہ کس لڑائی میں مجھ کو لڑا دیا
تجھ کو قبا کی فِکر ہے میرا تو سر گیا
... یہ بھی واضح نہیں

اے زندگی مزاج میں یہ تلخیاں ہیں کیوں
جو بھی تِری پناہ میں آیا وہ مر گیا
.. اس کی بات عزیزی راحل کر چکے

مُڑنا تھا جس مقام سے گھر کے لیئے مجھے
شاید میں اُس مقام سے آ گے گزر گیا
.. درست


فکرِ مُعاش نے مِری نیندیں اُجاڑ دیں
خوابوں کا جو بُخار تھا جلدی اُتر گیا
.. درست

کتنی حلاوتیں تِرے لہجے میں تھیں کبھی
اب تو تِری زُبان کا شیریں اثر گیا
.. اب تو تری.... تنافر پیدا کرتا ہے
اب وہ... کیا جا سکتا ہے، لیکن کچھ اس کا اشارہ بھی ہو جاتا کہ کیوں ایسا ہوا؟
نئے اشعار ہ

وہ جو کبھی بھی موج میں سرکش نہیں ہوا
یہ سوچنا ہے دریا وہ کیسے بپھر گیا
... درہا کے الف کا اسقاط گوارا نہیں، ترتیب بدل دیں
..... کیسے وہ دریا بپھر گیا

اک میں جسے جدائی نے بنجر بنا دیا
اک تُو کہ جو فِراق میں اتنا نکھر گیا

.. درست بلکہ پسند آیا، اچھا شعر ہے
 

akhtarwaseem

محفلین
اُستادِ محترم، آداب
آپ کے وقت اور توجہ کے لیئے بےحد شکریہ۔


مطلع درست تو ہے لیکن ایسی کیا بات ہو گئی کہ لوگ ڈرنے لگے؟ یہ بات واضح نہیں

حضرت میرا ماننا ہے کہ اگر شعر اپنا مُدعا خود بیان نہ کر سکے تو اُسے شعر کہلانے
کا کوئی حق نہیں۔ میں عرض تو کر سکتا ہوں کہ کیاکہنے کی کوشش کی گئی، لیکن
چونکہ شعر خود واضح نہیں کر رہا ، جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا، تو بہتر یہی ہے کہ
اس بات کو کسی اور پیرائے میں باندھا جائے تاکہ بات واضح ہو کر سامنے آ سکے۔

کتنی حلاوتیں تِرے لہجے میں تھیں کبھی
اب تو تِری زُبان کا شیریں اثر گیا
.. اب تو تری.... تنافر پیدا کرتا ہے
اب وہ... کیا جا سکتا ہے، لیکن کچھ اس کا اشارہ بھی ہو جاتا کہ کیوں ایسا ہوا؟

آپ نے جو ارشاد فرمایا وہی بہتر شکل لگ رہی ہے۔ میں پھر سے کوشش کرتا
ہو کہ اس شعر کو واضح انداز میں پیش کر سکوں۔

وہ جو کبھی بھی موج میں سرکش نہیں ہوا
یہ سوچنا ہے دریا وہ کیسے بپھر گیا
... درہا کے الف کا اسقاط گوارا نہیں، ترتیب بدل دیں
..... کیسے وہ دریا بپھر گیا

سبحان اللہ، جیسے ہی آپ نے اشارہ فرمایا، الف کا اسقاط واقعی
ناگوار لگنے لگا ہے۔ یہ باریک بینی آپ ہی کا خاصہ ہے۔
اللہ تعالی مجھ جیسے طالب علموں کو آپ کی صحبت سے فائدہ
اُٹھانے کی توفیق عطا فرمایے۔ آمین۔


اک میں جسے جدائی نے بنجر بنا دیا
اک تُو کہ جو فِراق میں اتنا نکھر گیا

.. درست بلکہ پسند آیا، اچھا شعر ہے

آپ کی شفقت کے لیئے بے حد ممنون ہوں۔ میرے لیئے یہ
ایک بہت بڑا اعزاز ہے کہ آپ نے اس شعر کو لائق تحسین
سمجھا۔

جزاک اللہ خیر
 
Top