مکرمی فیضان صاحب، آداب!
یادآوری کے لئے ممنون ہوں۔ آپ نے دعوتِ اظہار دے کر عزت افزائی کی، اس کے لئے بھی شکرگزار ہوں، یہ سراسر آپ اکی ذرہ نوازی ہے۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آپ کے اندازِ بیاں کی بے ساختگی نے متاثر کیا۔ ماشاءاللہ۔ کچھ نکات جو ذہن میں وارد ہوئے، گوش گزار کئے دیتا ہوں، اگر موافق جانیں تو ان کے بارے میں سوچئے گا۔
’’سے مقابل‘‘ یا ’’کے مقابل‘‘؟؟؟ میری ناچیز رائے یہ ہے کہ مقابل آنا درست محاورہ ہے، تو ’’سے مقابل‘‘ کہنا درست نہ ہوگا۔ مجھے خود بھی کچھ تردد تھا تو لغت سے رجوع کیا۔ وہاں مقابل کے باب میں جتنی اسناد مذکور ہیں، سب میں ’’کے مقابل‘‘ ہی استعمال ہوا ہے۔
اگر شعر کی معنویت کی بات کی جائے تو دوسرے مصرعے سے کسی پیہم عمل کا تاثر ابھرتا ہے، گویا دل اب بھی یا آج تک یادوں سے نبرد آزما ہے۔ پہلا مصرعہ یہ مفہوم بخوبی نہیں نبھا پارہا۔ یوں کہیں تو کیسا ہے؟
آج یادوں کے پھر مقابل ہے
جبکہ ہلکان ہو چکا دل ہے!
مگر نجانے کیوں مجھے دوسرے مصرعے میں تعقید لفظی محسوس ہورہی ہے اور ’’ہوچکا دل ہے‘‘ غیر فطری لگ رہا ہے۔ یوں کیسا رہے گا؟
جبکہ ہلکان، مضمحل دل ہے ؟
گستاخی معاف، ’’ہاں‘‘ یہاں حشو ہے، وزن پورا کرنے کے لئے۔ اس سے جان چھڑائیں کسی طرح۔
کچھ کچھ وصیؔ شاہ سے متاثر نظر آتا ہے یہ شعر
مرا۔حل؟؟؟ یوں کہیں تو؟
تُو نے ہی کردیا مجھے بے چین
گویا تُو حل نہیں ہے، مشکل ہے!
اچھا ہے، ماشاءاللہ ۔۔۔ ہمارے مزاج سے میل کھاتا ہے
یہ بھی ٹھیک لگ رہا ہے۔
شعر وزن میں تو پورا ہے، مگر بیان الجھاؤ کا شکار اور تشنۂ معانی ہے۔ ویسے بہت نازک مضمون نبھانے کی کوشش کررہے ہیں، کئی لوگ بھڑک سکتے ہیں اس پر
یوں کہہ کر دیکھیں
تو اسے مانگ کیوں نہیں لیتا؟
کچھ خدا کے لئے بھی مشکل ہے؟
’’جانے کبھی کی‘‘ مجھے غیر فصیح معلوم ہوتا ہے۔ دوسرے مصرعے کو یوں سوچ کر دیکھیں
روح شاید ازل سے گھائل ہے۔
(ابھی ابھی ایک نکتہ یہ ذہن میں آیا کہ دل، مشکل وغیرہ کے ساتھ مائل اور گھائل کو بطور قافیہ لانا درست ہوگا یا نہیں؟ دیکھیں استادِ محترم لوٹتے ہیں تو وہ اس بابت کیا فرماتے ہیں)
پہلے مصرعے میں نقص کے بجائے عیب کا محل ہے، اس کے علاوہ بنت مزید بہتر ہوسکتی۔ ایک صورت میرے ذہن میں آئی ہے، کچھ یوں
ٹھیک ہے، مجھ میں عیب ہیں، لیکن
کوئی ایسا بھی ہے جو کامل ہے؟
’’ناں‘‘ پر اساتذہ کی ناک بھوں چڑھنے کے قوی امکانات ہیں
عموماً یہ حشو کی ٹکسالی مثال گردانی جاتی ہے۔ بہتر ہے اسے استعمال نہ کریں۔ اسکے علاوہ ’’جو یہ فیضان‘‘ کی بجائے ’’یہ جو فیضان‘‘ کہنا زیادہ فصیح ہوگا۔ دوسرے مصرے میں ’’یہ ہی‘‘ کا متصل آنا فصاحت کے خلاف ہے، یہاں پر ’’یہی‘‘ کہا جائے گا، مگر اس کے بعد وزن برقرار رکھنے کے لئے الفاظ کی ترتیب و نشست بدلنا پڑے گی۔ اس کی مشق آپ کے حوالے
امید ہے آپ نے میری معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا۔ میں اور آپ تقریباً معاصر ہی ہیں، سو اگر کہیں آپ کو کسی نکتے میں کوئی تردد محسوس ہو تو بلاجھجک کہیے گا۔
دعاگو،
راحلؔ