غزل برائے اصلاح

فیضان قیصر

محفلین
آپ کی یاد سے مقابل ہے
اب تو ہلکان ہوچکا دل ہے

وقت پر کچھ نہیں ملا ہم کو
ہاں محبت بھی اس میں شامل ہے

تُو نے بے چین کردیا مجھکو
تُو مرا "حل" نہیں ہے "مشکل" ہے

یہ اذیت بھی کم نہیں جاناں
تجھکو پانے میں تُو ہی حائل ہے

آج کے دن کی خیر ہو یارب
دل اداسی کی طرف مائل ہے


تم اسے مانگ بھی تو سکتے ہو
کیا خدا کے لیے بھی مشکل ہے

سچ کہوں تو مجھے بھی یاد نہیں
روح جانے کبھی کی گھائل ہے

ٹھیک ہے مجھ میں عیب ہیں تھوڑے
کوئی ایسا بھی ہے جو کامل ہے


جو یہ فیضان چپ لگی ہے ناں
شوقِ الفت کا یہ ہی حاصل ہے
 
آخری تدوین:
مکرمی فیضان صاحب، آداب!
یادآوری کے لئے ممنون ہوں۔ آپ نے دعوتِ اظہار دے کر عزت افزائی کی، اس کے لئے بھی شکرگزار ہوں، یہ سراسر آپ اکی ذرہ نوازی ہے۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آپ کے اندازِ بیاں کی بے ساختگی نے متاثر کیا۔ ماشاءاللہ۔ کچھ نکات جو ذہن میں وارد ہوئے، گوش گزار کئے دیتا ہوں، اگر موافق جانیں تو ان کے بارے میں سوچئے گا۔

آپ کی یاد سے مقابل ہے
اب تو ہلکان ہوچکا دل ہے
’’سے مقابل‘‘ یا ’’کے مقابل‘‘؟؟؟ میری ناچیز رائے یہ ہے کہ مقابل آنا درست محاورہ ہے، تو ’’سے مقابل‘‘ کہنا درست نہ ہوگا۔ مجھے خود بھی کچھ تردد تھا تو لغت سے رجوع کیا۔ وہاں مقابل کے باب میں جتنی اسناد مذکور ہیں، سب میں ’’کے مقابل‘‘ ہی استعمال ہوا ہے۔
اگر شعر کی معنویت کی بات کی جائے تو دوسرے مصرعے سے کسی پیہم عمل کا تاثر ابھرتا ہے، گویا دل اب بھی یا آج تک یادوں سے نبرد آزما ہے۔ پہلا مصرعہ یہ مفہوم بخوبی نہیں نبھا پارہا۔ یوں کہیں تو کیسا ہے؟
آج یادوں کے پھر مقابل ہے
جبکہ ہلکان ہو چکا دل ہے!
مگر نجانے کیوں مجھے دوسرے مصرعے میں تعقید لفظی محسوس ہورہی ہے اور ’’ہوچکا دل ہے‘‘ غیر فطری لگ رہا ہے۔ یوں کیسا رہے گا؟
جبکہ ہلکان، مضمحل دل ہے ؟

وقت پر کچھ نہیں ملا ہم کو
ہاں محبت بھی اس میں شامل ہے
گستاخی معاف، ’’ہاں‘‘ یہاں حشو ہے، وزن پورا کرنے کے لئے۔ اس سے جان چھڑائیں کسی طرح۔

تُو نے بے چین کردیا مجھکو
تُو مرا "حل" نہیں ہے "مشکل" ہے
کچھ کچھ وصیؔ شاہ سے متاثر نظر آتا ہے یہ شعر :)
مرا۔حل؟؟؟ یوں کہیں تو؟
تُو نے ہی کردیا مجھے بے چین
گویا تُو حل نہیں ہے، مشکل ہے!

یہ اذیت بھی کم نہیں جاناں
تجھکو پانے میں تُو ہی حائل ہے
اچھا ہے، ماشاءاللہ ۔۔۔ ہمارے مزاج سے میل کھاتا ہے :)

آج کے دن کی خیر ہو یارب
دل اداسی کی طرف مائل ہے
یہ بھی ٹھیک لگ رہا ہے۔

تم اسے مانگ بھی تو سکتے ہو
کیا خدا کے لیے بھی مشکل ہے
شعر وزن میں تو پورا ہے، مگر بیان الجھاؤ کا شکار اور تشنۂ معانی ہے۔ ویسے بہت نازک مضمون نبھانے کی کوشش کررہے ہیں، کئی لوگ بھڑک سکتے ہیں اس پر :) یوں کہہ کر دیکھیں
تو اسے مانگ کیوں نہیں لیتا؟
کچھ خدا کے لئے بھی مشکل ہے؟

سچ کہوں تو مجھے بھی یاد نہیں
روح جانے کبھی کی گھائل ہے
’’جانے کبھی کی‘‘ مجھے غیر فصیح معلوم ہوتا ہے۔ دوسرے مصرعے کو یوں سوچ کر دیکھیں
روح شاید ازل سے گھائل ہے۔
(ابھی ابھی ایک نکتہ یہ ذہن میں آیا کہ دل، مشکل وغیرہ کے ساتھ مائل اور گھائل کو بطور قافیہ لانا درست ہوگا یا نہیں؟ دیکھیں استادِ محترم لوٹتے ہیں تو وہ اس بابت کیا فرماتے ہیں)

ٹھیک ہے مجھ میں نقص ہیں تھوڑے
کوئی ایسا بھی ہے جو کامل ہے
پہلے مصرعے میں نقص کے بجائے عیب کا محل ہے، اس کے علاوہ بنت مزید بہتر ہوسکتی۔ ایک صورت میرے ذہن میں آئی ہے، کچھ یوں
ٹھیک ہے، مجھ میں عیب ہیں، لیکن
کوئی ایسا بھی ہے جو کامل ہے؟

جو یہ فیضان چپ لگی ہے ناں
شوقِ الفت کا یہ ہی حاصل ہے
’’ناں‘‘ پر اساتذہ کی ناک بھوں چڑھنے کے قوی امکانات ہیں :) عموماً یہ حشو کی ٹکسالی مثال گردانی جاتی ہے۔ بہتر ہے اسے استعمال نہ کریں۔ اسکے علاوہ ’’جو یہ فیضان‘‘ کی بجائے ’’یہ جو فیضان‘‘ کہنا زیادہ فصیح ہوگا۔ دوسرے مصرے میں ’’یہ ہی‘‘ کا متصل آنا فصاحت کے خلاف ہے، یہاں پر ’’یہی‘‘ کہا جائے گا، مگر اس کے بعد وزن برقرار رکھنے کے لئے الفاظ کی ترتیب و نشست بدلنا پڑے گی۔ اس کی مشق آپ کے حوالے :)

امید ہے آپ نے میری معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا۔ میں اور آپ تقریباً معاصر ہی ہیں، سو اگر کہیں آپ کو کسی نکتے میں کوئی تردد محسوس ہو تو بلاجھجک کہیے گا۔

دعاگو،
راحلؔ
 
آخری تدوین:

فیضان قیصر

محفلین
مکرمی فیضان صاحب، آداب!
یادآوری کے لئے ممنون ہوں۔ آپ نے دعوتِ اظہار دے کر عزت افزائی کی، اس کے لئے بھی شکرگزار ہوں، یہ سراسر آپ اکی ذرہ نوازی ہے۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آپ کے اندازِ بیاں کی بے ساختگی نے متاثر کیا۔ ماشاءاللہ۔ کچھ نکات جو ذہن میں وارد ہوئے، گوش گزار کئے دیتا ہوں، اگر موافق جانیں تو ان کے بارے میں سوچئے گا۔


’’سے مقابل‘‘ یا ’’کے مقابل‘‘؟؟؟ میری ناچیز رائے یہ ہے کہ مقابل آنا درست محاورہ ہے، تو ’’سے مقابل‘‘ کہنا درست نہ ہوگا۔ مجھے خود بھی کچھ تردد تھا تو لغت سے رجوع کیا۔ وہاں مقابل کے باب میں جتنی اسناد مذکور ہیں، سب میں ’’کے مقابل‘‘ ہی استعمال ہوا ہے۔
اگر شعر کی معنویت کی بات کی جائے تو دوسرے مصرعے سے کسی پیہم عمل کا تاثر ابھرتا ہے، گویا دل اب بھی یا آج تک یادوں سے نبرد آزما ہے۔ پہلا مصرعہ یہ مفہوم بخوبی نہیں نبھا پارہا۔ یوں کہیں تو کیسا ہے؟
آج یادوں کے پھر مقابل ہے
جبکہ ہلکان ہو چکا دل ہے!
مگر نجانے کیوں مجھے دوسرے مصرعے میں تعقید لفظی محسوس ہورہی ہے اور ’’ہوچکا دل ہے‘‘ غیر فطری لگ رہا ہے۔ یوں کیسا رہے گا؟
جبکہ ہلکان، مضمحل دل ہے ؟


گستاخی معاف، ’’ہاں‘‘ یہاں حشو ہے، وزن پورا کرنے کے لئے۔ اس سے جان چھڑائیں کسی طرح۔


کچھ کچھ وصیؔ شاہ سے متاثر نظر آتا ہے یہ شعر :)
مرا۔حل؟؟؟ یوں کہیں تو؟
تُو نے ہی کردیا مجھے بے چین
گویا تُو حل نہیں ہے، مشکل ہے!


اچھا ہے، ماشاءاللہ ۔۔۔ ہمارے مزاج سے میل کھاتا ہے :)


یہ بھی ٹھیک لگ رہا ہے۔


شعر وزن میں تو پورا ہے، مگر بیان الجھاؤ کا شکار اور تشنۂ معانی ہے۔ ویسے بہت نازک مضمون نبھانے کی کوشش کررہے ہیں، کئی لوگ بھڑک سکتے ہیں اس پر :) یوں کہہ کر دیکھیں
تو اسے مانگ کیوں نہیں لیتا؟
کچھ خدا کے لئے بھی مشکل ہے؟


’’جانے کبھی کی‘‘ مجھے غیر فصیح معلوم ہوتا ہے۔ دوسرے مصرعے کو یوں سوچ کر دیکھیں
روح شاید ازل سے گھائل ہے۔
(ابھی ابھی ایک نکتہ یہ ذہن میں آیا کہ دل، مشکل وغیرہ کے ساتھ مائل اور گھائل کو بطور قافیہ لانا درست ہوگا یا نہیں؟ دیکھیں استادِ محترم لوٹتے ہیں تو وہ اس بابت کیا فرماتے ہیں)


پہلے مصرعے میں نقص کے بجائے عیب کا محل ہے، اس کے علاوہ بنت مزید بہتر ہوسکتی۔ ایک صورت میرے ذہن میں آئی ہے، کچھ یوں
ٹھیک ہے، مجھ میں عیب ہیں، لیکن
کوئی ایسا بھی ہے جو کامل ہے؟


’’ناں‘‘ پر اساتذہ کی ناک بھوں چڑھنے کے قوی امکانات ہیں :) عموماً یہ حشو کی ٹکسالی مثال گردانی جاتی ہے۔ بہتر ہے اسے استعمال نہ کریں۔ اسکے علاوہ ’’جو یہ فیضان‘‘ کی بجائے ’’یہ جو فیضان‘‘ کہنا زیادہ فصیح ہوگا۔ دوسرے مصرے میں ’’یہ ہی‘‘ کا متصل آنا فصاحت کے خلاف ہے، یہاں پر ’’یہی‘‘ کہا جائے گا، مگر اس کے بعد وزن برقرار رکھنے کے لئے الفاظ کی ترتیب و نشست بدلنا پڑے گی۔ اس کی مشق آپ کے حوالے :)

امید ہے آپ نے میری معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا۔ میں اور آپ تقریباً معاصر ہی ہیں، سو اگر کہیں آپ کو کسی نکتے میں کوئی تردد محسوس ہو تو بلاجھجک کہیے گا۔

دعاگو،
راحلؔ
راحل بھائی آپ کے مشوروں کا بے حدد شکریہ نیز آپ کی منکسرالمزاجی اور حسساسیت بھی لائقِ تحسین ہے ۔ آپ کے مشوروں سے واقعی اشعار بہتر نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اب یہ دیکھیے



آپ کی یاد کے مقابل ہے
قابلِ داد طاقتِ دل ہے

یہ اذیت بھی کم نہیں جاناں
تجھکو پانے میں تُو ہی حائل ہے

وقت پر کچھ نہیں ملا ہم کو
عیشِ الفت بھی اس میں شامل ہے

تُو اسے مانگ کیوں نہیں لیتا
کچھ خدا کے لیے بھی مشکل ہے

ٹھیک ہے مجھ میں عیب ہیں لیکن
کوئی ایسا بھی ہے جو کامل ہے

آج کے دن کی خیر ہو یارب
دل اداسی کی طرف مائل ہے

یہ جو فیضان چپ لگی ہے نا
قربتِ یار کا یہ حاصل ہے
 
آخری تدوین:
ماشاءاللہ، بہت خوب، خاص کر مطلع کافی جاندار کہا ہے اب آپ نے۔ امید ہے استاز محترم کو بھی پسند آئے گی۔

مقطع میں نا میں نے خود رہنے دیا ہے کہ یہ مجھے روز مرہ بول چال کے نذدیک معلوم ہوتا ہے۔
دو حرفی نا، بہرحال ہے تو متنازع ہی، مگر چونکہ مثال تو خو حضرت میر کے یہاں سے بھی ڈھونڈی جاسکتی ہے اور عہد جدید کے سینئر شعراء کے یہاں تو کافی مستعمل رہی ہے اس لئے میرا ذاتی رجحان یہی ہے اس معاملے میں کہ اگر استعمال اچھے طریقے سے کیا گیا ہو تو شاعر کی صوابدید کا احترام کرنا چاہیئے۔ واللہ اعلم :)

دعاگو،
راحل۔
 

فیضان قیصر

محفلین
مکرمی فیضان صاحب، آداب!
یادآوری کے لئے ممنون ہوں۔ آپ نے دعوتِ اظہار دے کر عزت افزائی کی، اس کے لئے بھی شکرگزار ہوں، یہ سراسر آپ اکی ذرہ نوازی ہے۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آپ کے اندازِ بیاں کی بے ساختگی نے متاثر کیا۔ ماشاءاللہ۔ کچھ نکات جو ذہن میں وارد ہوئے، گوش گزار کئے دیتا ہوں، اگر موافق جانیں تو ان کے بارے میں سوچئے گا۔


’’سے مقابل‘‘ یا ’’کے مقابل‘‘؟؟؟ میری ناچیز رائے یہ ہے کہ مقابل آنا درست محاورہ ہے، تو ’’سے مقابل‘‘ کہنا درست نہ ہوگا۔ مجھے خود بھی کچھ تردد تھا تو لغت سے رجوع کیا۔ وہاں مقابل کے باب میں جتنی اسناد مذکور ہیں، سب میں ’’کے مقابل‘‘ ہی استعمال ہوا ہے۔
اگر شعر کی معنویت کی بات کی جائے تو دوسرے مصرعے سے کسی پیہم عمل کا تاثر ابھرتا ہے، گویا دل اب بھی یا آج تک یادوں سے نبرد آزما ہے۔ پہلا مصرعہ یہ مفہوم بخوبی نہیں نبھا پارہا۔ یوں کہیں تو کیسا ہے؟
آج یادوں کے پھر مقابل ہے
جبکہ ہلکان ہو چکا دل ہے!
مگر نجانے کیوں مجھے دوسرے مصرعے میں تعقید لفظی محسوس ہورہی ہے اور ’’ہوچکا دل ہے‘‘ غیر فطری لگ رہا ہے۔ یوں کیسا رہے گا؟
جبکہ ہلکان، مضمحل دل ہے ؟


گستاخی معاف، ’’ہاں‘‘ یہاں حشو ہے، وزن پورا کرنے کے لئے۔ اس سے جان چھڑائیں کسی طرح۔


کچھ کچھ وصیؔ شاہ سے متاثر نظر آتا ہے یہ شعر :)
مرا۔حل؟؟؟ یوں کہیں تو؟
تُو نے ہی کردیا مجھے بے چین
گویا تُو حل نہیں ہے، مشکل ہے!


اچھا ہے، ماشاءاللہ ۔۔۔ ہمارے مزاج سے میل کھاتا ہے :)


یہ بھی ٹھیک لگ رہا ہے۔


شعر وزن میں تو پورا ہے، مگر بیان الجھاؤ کا شکار اور تشنۂ معانی ہے۔ ویسے بہت نازک مضمون نبھانے کی کوشش کررہے ہیں، کئی لوگ بھڑک سکتے ہیں اس پر :) یوں کہہ کر دیکھیں
تو اسے مانگ کیوں نہیں لیتا؟
کچھ خدا کے لئے بھی مشکل ہے؟


’’جانے کبھی کی‘‘ مجھے غیر فصیح معلوم ہوتا ہے۔ دوسرے مصرعے کو یوں سوچ کر دیکھیں
روح شاید ازل سے گھائل ہے۔
(ابھی ابھی ایک نکتہ یہ ذہن میں آیا کہ دل، مشکل وغیرہ کے ساتھ مائل اور گھائل کو بطور قافیہ لانا درست ہوگا یا نہیں؟ دیکھیں استادِ محترم لوٹتے ہیں تو وہ اس بابت کیا فرماتے ہیں)


پہلے مصرعے میں نقص کے بجائے عیب کا محل ہے، اس کے علاوہ بنت مزید بہتر ہوسکتی۔ ایک صورت میرے ذہن میں آئی ہے، کچھ یوں
ٹھیک ہے، مجھ میں عیب ہیں، لیکن
کوئی ایسا بھی ہے جو کامل ہے؟


’’ناں‘‘ پر اساتذہ کی ناک بھوں چڑھنے کے قوی امکانات ہیں :) عموماً یہ حشو کی ٹکسالی مثال گردانی جاتی ہے۔ بہتر ہے اسے استعمال نہ کریں۔ اسکے علاوہ ’’جو یہ فیضان‘‘ کی بجائے ’’یہ جو فیضان‘‘ کہنا زیادہ فصیح ہوگا۔ دوسرے مصرے میں ’’یہ ہی‘‘ کا متصل آنا فصاحت کے خلاف ہے، یہاں پر ’’یہی‘‘ کہا جائے گا، مگر اس کے بعد وزن برقرار رکھنے کے لئے الفاظ کی ترتیب و نشست بدلنا پڑے گی۔ اس کی مشق آپ کے حوالے :)

امید ہے آپ نے میری معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا۔ میں اور آپ تقریباً معاصر ہی ہیں، سو اگر کہیں آپ کو کسی نکتے میں کوئی تردد محسوس ہو تو بلاجھجک کہیے گا۔

دعاگو،
راحلؔ
اس والے شعر کو یوں اگر کہیں تو

تُو نے بے چین کر دیا ہے مجھے
گویا تُو حل نہیں ہے مشکل ہے
 

فیضان قیصر

محفلین
ماشاءاللہ، بہت خوب، خاص کر مطلع کافی جاندار کہا ہے اب آپ نے۔ امید ہے استاز محترم کو بھی پسند آئے گی۔


دو حرفی نا، بہرحال ہے تو متنازع ہی، مگر چونکہ مثال تو خو حضرت میر کے یہاں سے بھی ڈھونڈی جاسکتی ہے اور عہد جدید کے سینئر شعراء کے یہاں تو کافی مستعمل رہی ہے اس لئے میرا ذاتی رجحان یہی ہے اس معاملے میں کہ اگر استعمال اچھے طریقے سے کیا گیا ہو تو شاعر کی صوابدید کا احترام کرنا چاہیئے۔ واللہ اعلم :)

دعاگو،
راحل۔
میرا ایک شعر

کتنا ڈرپوک ہوگیا ہوں نا
اب محبت سے بھی میں ڈرتا ہوں

یہ استادِ محترم نے پاس کیا ہوا ہے
 
اس والے شعر کو یوں اگر کہیں تو

تُو نے بے چین کر دیا ہے مجھے
گویا تُو حل نہیں ہے مشکل ہے
یوں بھی ٹھیک ہے۔

میرا ایک شعر

کتنا ڈرپوک ہوگیا ہوں نا
اب محبت سے بھی میں ڈرتا ہوں

یہ استادِ محترم نے پاس کیا ہوا ہے
بس پھر کیا مشکل ہے :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خوب! اچھی غزل کہی!
مقطع سے پہلے والا شعر پھر دیکھ لیجئے ۔ دوسرا مصرع وزن سے خارج ہے ۔ شاید آپ "طرف" کا تلفظ ٹھیک نہیں کررہے۔ اس لفظ کا وزن فعو ہے فاع نہیں ۔
 
خوب! اچھی غزل کہی!
مقطع سے پہلے والا شعر پھر دیکھ لیجئے ۔ دوسرا مصرع وزن سے خارج ہے ۔ شاید آپ "طرف" کا تلفظ ٹھیک نہیں کررہے۔ اس لفظ کا وزن فعو ہے فاع نہیں ۔
واللہ میرے ذہن کو بھی یہ کھٹکا تھا۔ لغت سے رجوع کیا تو وہاں بھی املا بر وزن فعو ہی لکھا ملا مگر جب عروض کی ویب گاہ پر تقطیع کی تو اس نے شعر کو میزان میں پورا بتایا اور وزن طَرْف بتایا۔ میں نے یہ خیال کیا کہ شاید اس کا بھی ’’طرح‘‘ کی مثل کوئی جواز ہوگا جو میرے علم میں نہیں۔ آپ کی وضاحت سے ایک الجھن دور ہوئی جس کے لئے میں شکرگزار ہوں۔ ویسے جناب، یہ زمرہ آپ کی توجہ کا شدت سے طالب ہے، خصوصاً استاد محترم کی غیرموجودگی میں تو کسی ثقہ علمی شخصیت کی کمی بہت زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔

دعاگو،
راحلؔ
 
آخری تدوین:

فیضان قیصر

محفلین
خوب! اچھی غزل کہی!
مقطع سے پہلے والا شعر پھر دیکھ لیجئے ۔ دوسرا مصرع وزن سے خارج ہے ۔ شاید آپ "طرف" کا تلفظ ٹھیک نہیں کررہے۔ اس لفظ کا وزن فعو ہے فاع نہیں ۔
بہت شکریہ محترم - مجھے بھی عروض کی تقطیع نے کنفیوز کیا - میں دیکھ لیتا ہوں اس کو دوبارہ - بہت شکر گزار ہوں آپ نے توجہ اور حوصلہ افزائی فرمائی - اللہ آپ کو سلامت رکھے - آمین
 

فیضان قیصر

محفلین
واللہ میرے ذہن کو بھی یہ کھٹکا تھا۔ لغت سے رجوع کیا تو وہاں بھی املا بر وزن فعو ہی لکھا ملا مگر جب عروض کی ویب گاہ پر تقطیع کی تو اس نے شعر کو میزان میں پورا بتایا اور وزن طَرْف بتایا۔ میں نے یہ خیال کیا کہ شاید اس کا بھی ’’طرح‘‘ کی مثل کوئی جواز ہوگا جو میرے علم میں نہیں۔ آپ کی وضاحت سے ایک الجھن دور ہوئی جس کے لئے میں شکرگزار ہوں۔ ویسے جناب، یہ زمرہ آپ کی توجہ کا شدت سے طالب ہے، خصوصاً استاد محترم کی غیرموجودگی میں تو کسی ثقہ علمی شخصیت کی کمی بہت زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔

دعاگو،
راحلؔ

اب دیکھیے گا کیا فرماتے ہیں

آج کے دن کی خیر ہو یارب
دل اداسی پہ پھر سے مائل ہے
 
Top