غزل برائے اصلاح

السلام علیکم سر الف عین عظیم شاہد شاہنواز بھائی اصلاح فرما دیجئے۔۔۔

فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فاع

ہم کو عدل انصاف ملے اک بات نہیں آزادی کی
میں نہیں کہتا یہ رائے ہے میری پوری وادی کی

وہ دن دور نہیں جب توڑ کے پنجرا پنچھی نکلیں گے
سانس لیں گے آزاد ہوا میں ، بات ہے پختہ ارادی کی

ان سب بچیوں پر تعلیم کے تب دروازے بند ہوئے
گاؤں کی اک پڑھی لکھّی لڑکی نے جب بھاگ کے شادی کی

لوٹے ہوؤں کو لوٹا اپنے محل بنوائے لندن میں
ہمکو خواب دکھا کر تم نے ہماری بہت بربادی کی

یاں جمہور کا راج چلے گا دہشت گردوں کو بھگاؤ
میرا ملک ہے ، یہ جاگیر نہیں ہے کسی شہزادی کی

ٹیکس لگایا اور مل بانٹ کے کھایا ان وزّیروں نے
ترکاری کو رونے والے کی اب روٹی بھی آدھی کی

"جتنا پیسہ ہو گا اتنی بڑھے گی لالچ اک دن عمران "
اب سچ ہوتی نظر آتی ہے بات یہ میری دادی کی

شکریہ
 
آخری تدوین:
جناب اگر اجازت ہو تو استاد محترم کی آمد سے قبل کچھ سامنے کے نکات کی نشاندہی کردوں؟

ہم کو عدل انصاف ملے اک بات نہیں آزادی کی
میں نہیں کہتا یہ رائے ہے میری پوری وادی
عدل انصاف نہیں، عدل و انصاف درست ترکیب ہے، یعنی واو عطف کے ساتھ۔ دوسرے یہ کہ "اک بات" کے بجائے یہاں "صرف بات" کا محل ہے۔

وہ دن دور نہیں جب توڑ کے پنجرا پنچھی نکلیں گے
سانس لیں گے آزاد ہوا میں ، بات ہے پختہ ارادی کی
دوسرے مصرعے میں "لیں گے" میں لیں کی ی اور "پختہ ارادی" میں "تہ" کی حرکت بہت زیادہ دب رہے ہیں، گویا روانی برقرار رکھنے کے لئے "لنگے" اور "پخت ارادی" پڑھنا پڑ رہا ہے۔

ان سب بچیوں پر تعلیم کے تب دروازے بند ہوئے
گاؤں کی اک پڑھی لکھّی لڑکی نے جب بھاگ کے شادی کی
"تب دروازے بند ہوئے" کے بجائے "دروازے تب بند ہوئے" کردیں جو کہ نہ صرف زیادہ رواں ہوگا بلکہ تعقید سے بھی خالی ہوگا۔
دوسرا مصرعہ بحر سے خارج معلوم ہوتا ہے۔
(ویسے ذرا بچ کر، اس شعر میں آپ سیدھا سیدھا فیمنسٹس کو للکار رہے ہیں :) )

لوٹے ہوؤں کو لوٹا اپنے محل بنوائے لندن میں
ہمکو خواب دکھا کر تم نے ہماری بہت بربادی کی
"لوٹے ہووں" کہنا درست نہیں، "لٹے ہووں" کہیں۔
لٹے ہووں کو لوٹ کر اپنے محل بنائے لندن میں
ویسے دونوں مصرعوں کا ربط آپ کی مزید توجہ کا متقاضی ہے۔

یاں جمہور کا راج چلے گا دہشت گردوں کو بھگاؤ
میرا ملک ہے ، یہ جاگیر نہیں ہے کسی شہزادی کی
جمہور کے راج، شہزادی کی جاگیر اور دہشت گردو کو بھگانا ۔۔۔ ان تینوں کا آپس میں کیا ربط ہے؟ پھر شہزادی کی جاگیر یوں معلوم ہوتا ہے کہ بس قافیہ پیمائی کی گئی ہو۔

ٹیکس لگایا اور مل بانٹ کے کھایا ان وزّیروں نے
ترکاری کو رونے والے کی اب روٹی بھی آدھی کی
پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہے۔ وزیر کی ز مشدد کیونکر ہوسکتی ہے؟؟؟ میری ناچیز رائے میں یہ املا غلط ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں
ٹیکس کا پیسہ مل کر کھا گئے ظالم بے ایمان وزیر
اور ترکاری کھانے والوں کی روٹی تک آدھی کی

جتنا پیسہ ہو گا اتنی بڑھے گی لالچ اک دن عمران "
اب سچ ہوتی نظر آتی ہے بات یہ میری دادی کی
"اک دن عمران" کے بجائے "اے عمران" کردیں
دوسرے مصرعے کی بنت بہتر بنائی جاسکتی، موجود صورت میں دو ایک مقامات پر روانی میں تردد ہورہا ہے۔ مثلا یوں سوچ کر دیکھیں
سچ ہوتی محسوس ہوئی یہ بات مجھے اب دادی کی

ویسے بحر متقارب ہندی کا آخری رکن تو فع نہیں ہوتا؟ آپ نے فاع لکھا ہے، اس کے جواز پر کچھ روشنی ڈالئے گا۔

دعاگو،
راحل۔
 
آخری تدوین:
جناب اگر اجازت ہو تو استاد محترم کی آمد سے قبل کچھ سامنے کے نکات کی نشاندہی کردوں؟


عدل انصاف نہیں، عدل و انصاف درست ترکیب ہے، یعنی واو عطف کے ساتھ۔ دوسرے یہ کہ "اک بات" کے بجائے یہاں "صرف بات" کا محل ہے۔


دوسرے مصرعے میں "لیں گے" میں لیں کی ی اور "پختہ ارادی" میں "تہ" کی حرکت بہت زیادہ دب رہے ہیں، گویا روانی برقرار رکھنے کے لئے "لنگے" اور "پخت ارادی" پڑھنا پڑ رہا ہے۔


"تب دروازے بند ہوئے" کے بجائے "دروازے تب بند ہوئے" کردیں جو کہ نہ صرف زیادہ رواں ہوگا بلکہ تعقید سے بھی خالی ہوگا۔
دوسرا مصرعہ بحر سے خارج معلوم ہوتا ہے۔
(ویسے ذرا بچ کر، اس شعر میں آپ سیدھا سیدھا فیمنسٹس کو للکار رہے ہیں :) )


"لوٹے ہووں" کہنا درست نہیں، "لٹے ہووں" کہیں۔
لٹے ہووں کو لوٹ کر اپنے محل بنائے لندن میں
ویسے دونوں مصرعوں کا ربط آپ کی مزید توجہ کا متقاضی ہے۔


جمہور کے راج، شہزادی کی جاگیر اور دہشت گردو کو بھگانا ۔۔۔ ان تینوں کا آپس میں کیا ربط ہے؟ پھر شہزادی کی جاگیر یوں معلوم ہوتا ہے کہ بس قافیہ پیمائی کی گئی ہو۔


پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہے۔ وزیر کی ز مشدد کیونکر ہوسکتی ہے؟؟؟ میری ناچیز رائے میں یہ املا غلط ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں
ٹیکس کا پیسہ مل کر کھا گئے ظالم بے ایمان وزیر
اور ترکاری کھانے والوں کی روٹی تک آدھی کی


"اک دن عمران" کے بجائے "اے عمران" کردیں
دوسرے مصرعے کی بنت بہتر بنائی جاسکتی، موجود صورت میں دو ایک مقامات پر روانی میں تردد ہورہا ہے۔ مثلا یوں سوچ کر دیکھیں
سچ ہوتی محسوس ہوئی یہ بات مجھے اب دادی کی

ویسے بحر متقارب ہندی کا آخری رکن تو فع نہیں ہوتا؟ آپ نے فاع لکھا ہے، اس کے جواز پر کچھ روشنی ڈالئے گا۔

دعاگو،
راحل۔
بہت شکریہ محترم۔۔۔ آپ نے کافی مدد کر دی میری۔۔۔
 
جناب اگر اجازت ہو تو استاد محترم کی آمد سے قبل کچھ سامنے کے نکات کی نشاندہی کردوں؟


عدل انصاف نہیں، عدل و انصاف درست ترکیب ہے، یعنی واو عطف کے ساتھ۔ دوسرے یہ کہ "اک بات" کے بجائے یہاں "صرف بات" کا محل ہے۔


دوسرے مصرعے میں "لیں گے" میں لیں کی ی اور "پختہ ارادی" میں "تہ" کی حرکت بہت زیادہ دب رہے ہیں، گویا روانی برقرار رکھنے کے لئے "لنگے" اور "پخت ارادی" پڑھنا پڑ رہا ہے۔


"تب دروازے بند ہوئے" کے بجائے "دروازے تب بند ہوئے" کردیں جو کہ نہ صرف زیادہ رواں ہوگا بلکہ تعقید سے بھی خالی ہوگا۔
دوسرا مصرعہ بحر سے خارج معلوم ہوتا ہے۔
(ویسے ذرا بچ کر، اس شعر میں آپ سیدھا سیدھا فیمنسٹس کو للکار رہے ہیں :) )


"لوٹے ہووں" کہنا درست نہیں، "لٹے ہووں" کہیں۔
لٹے ہووں کو لوٹ کر اپنے محل بنائے لندن میں
ویسے دونوں مصرعوں کا ربط آپ کی مزید توجہ کا متقاضی ہے۔


جمہور کے راج، شہزادی کی جاگیر اور دہشت گردو کو بھگانا ۔۔۔ ان تینوں کا آپس میں کیا ربط ہے؟ پھر شہزادی کی جاگیر یوں معلوم ہوتا ہے کہ بس قافیہ پیمائی کی گئی ہو۔


پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہے۔ وزیر کی ز مشدد کیونکر ہوسکتی ہے؟؟؟ میری ناچیز رائے میں یہ املا غلط ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں
ٹیکس کا پیسہ مل کر کھا گئے ظالم بے ایمان وزیر
اور ترکاری کھانے والوں کی روٹی تک آدھی کی


"اک دن عمران" کے بجائے "اے عمران" کردیں
دوسرے مصرعے کی بنت بہتر بنائی جاسکتی، موجود صورت میں دو ایک مقامات پر روانی میں تردد ہورہا ہے۔ مثلا یوں سوچ کر دیکھیں
سچ ہوتی محسوس ہوئی یہ بات مجھے اب دادی کی

ویسے بحر متقارب ہندی کا آخری رکن تو فع نہیں ہوتا؟ آپ نے فاع لکھا ہے، اس کے جواز پر کچھ روشنی ڈالئے گا۔

دعاگو،
راحل۔
بہت شکریہ برادر آپ نے بہت اچھی وضاحت کی۔۔۔
دروازے تب بند ، اس بھی عیب تنافر تھا اس لئے تب کی جگہ تبدیل کی۔۔۔
 
بہت شکریہ برادر آپ نے بہت اچھی وضاحت کی۔۔۔
دروازے تب بند ، اس بھی عیب تنافر تھا اس لئے تب کی جگہ تبدیل کی۔۔۔
جی، آپ درست کہہ رہے ہیں، مگر اس عاجز کا مزاج یہ ہے کہ میں روانی اور عدم تعقید کو تنافر پر ترجیح دیتا ہوں۔ آپ دوبارہ فکر کرکے دیکھیں تو ممکن ہے تنافر اور تعقید، دونوں کے بغیر کوئی صورت نکل آئے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اچھے مضامین ہیں تھوڑی سی محنت سے اچھی ہو جائے گی غزل۔

جہاں جہاں بحر سے نکل رہی ہے وہاں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ مصرع اس طرح کافی رواں ہو جائے گا۔

وہ دن دور نہیں جب پنچھی ، پنجرہ توڑ کے نکلیں گے
 
اچھے مضامین ہیں تھوڑی سی محنت سے اچھی ہو جائے گی غزل۔

جہاں جہاں بحر سے نکل رہی ہے وہاں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ مصرع اس طرح کافی رواں ہو جائے گا۔

وہ دن دور نہیں جب پنچھی ، پنجرہ توڑ کے نکلیں گے
بہت شکریہ۔۔۔ اللہ آپکو سلامت رکھے۔۔۔
 
جناب اگر اجازت ہو تو استاد محترم کی آمد سے قبل کچھ سامنے کے نکات کی نشاندہی کردوں؟


عدل انصاف نہیں، عدل و انصاف درست ترکیب ہے، یعنی واو عطف کے ساتھ۔ دوسرے یہ کہ "اک بات" کے بجائے یہاں "صرف بات" کا محل ہے۔


دوسرے مصرعے میں "لیں گے" میں لیں کی ی اور "پختہ ارادی" میں "تہ" کی حرکت بہت زیادہ دب رہے ہیں، گویا روانی برقرار رکھنے کے لئے "لنگے" اور "پخت ارادی" پڑھنا پڑ رہا ہے۔


"تب دروازے بند ہوئے" کے بجائے "دروازے تب بند ہوئے" کردیں جو کہ نہ صرف زیادہ رواں ہوگا بلکہ تعقید سے بھی خالی ہوگا۔
دوسرا مصرعہ بحر سے خارج معلوم ہوتا ہے۔
(ویسے ذرا بچ کر، اس شعر میں آپ سیدھا سیدھا فیمنسٹس کو للکار رہے ہیں :) )


"لوٹے ہووں" کہنا درست نہیں، "لٹے ہووں" کہیں۔
لٹے ہووں کو لوٹ کر اپنے محل بنائے لندن میں
ویسے دونوں مصرعوں کا ربط آپ کی مزید توجہ کا متقاضی ہے۔


جمہور کے راج، شہزادی کی جاگیر اور دہشت گردو کو بھگانا ۔۔۔ ان تینوں کا آپس میں کیا ربط ہے؟ پھر شہزادی کی جاگیر یوں معلوم ہوتا ہے کہ بس قافیہ پیمائی کی گئی ہو۔


پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہے۔ وزیر کی ز مشدد کیونکر ہوسکتی ہے؟؟؟ میری ناچیز رائے میں یہ املا غلط ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں
ٹیکس کا پیسہ مل کر کھا گئے ظالم بے ایمان وزیر
اور ترکاری کھانے والوں کی روٹی تک آدھی کی


"اک دن عمران" کے بجائے "اے عمران" کردیں
دوسرے مصرعے کی بنت بہتر بنائی جاسکتی، موجود صورت میں دو ایک مقامات پر روانی میں تردد ہورہا ہے۔ مثلا یوں سوچ کر دیکھیں
سچ ہوتی محسوس ہوئی یہ بات مجھے اب دادی کی

ویسے بحر متقارب ہندی کا آخری رکن تو فع نہیں ہوتا؟ آپ نے فاع لکھا ہے، اس کے جواز پر کچھ روشنی ڈالئے گا۔

دعاگو،
راحل۔
یہ دیکھئے محترم

ہم کو دو انصاف فقط اب بات نہیں آزادی کی
میں نہیں کہتا یہ ہے رائے میری پوری وادی کی

وہ دن دور نہیں جب پنچھی پنجرا توڑ کے نکلیں گے
اور اڑیں گے آزاد ہوا میں ، بات ہو گی آزادی کی

ان سب بچیوں پر تعلیم کے دروازے تب بند ہوئے
گاؤں کی پڑھّی لکھّی لڑکی نے جب بھاگ کے شادی کی

لٹ چکے تھے پھر لوٹا ، اپنے محل بنوائے لندن میں
ہمکو خواب دکھا کر تم نے ہماری بہت بربادی کی

ٹیکس کا پیسہ مل کر کھا گئے ظالم بے ایمان وزیر
اور ترکاری کھانے والوں کی روٹی تک آدھی کی

"پیسہ آتے ساتھ بڑھے گی لالچ بیٹے عمران "
سچ ہوتی محسوس ہوئی یہ بات مجھے اب دادی کی
 
ویسے بحر متقارب ہندی کا آخری رکن تو فع نہیں ہوتا؟ آپ نے فاع لکھا ہے، اس کے جواز پر کچھ روشنی ڈالئے گا۔
بحر متقارب کے مزاحف میں لیں تو یہ بحر اس طرح ہے۔۔۔
فعل فعول فعول فعول فعول فعول فعول فعول
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فاع
 
ان سب بچیوں پر تعلیم کے دروازے تب بند ہوئے
گاؤں کی پڑھّی لکھّی لڑکی نے جب بھاگ کے شادی کی
میری ناچیز رائے میں دوسرے مصرعے کی روانی اب بھی توجہ طلب ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں
گاؤں کی جب اک پڑھی لکھی لڑکی نے بھاگ کے شادی کی

لٹ چکے تھے پھر لوٹا ، اپنے محل بنوائے لندن میں
ہمکو خواب دکھا کر تم نے ہماری بہت بربادی کی
کون لٹ چکے تھے؟ کس نے دوبارہ لوٹا؟ خواب دکھا کر بربادی کا لوٹے ہوئے پیسے سے لندن میں بنائے محلوں کا تعلق ۔۔۔ یہ سب نکات اب بھی جواب طلب اور آپ کی توجہ کے متقاضی ہے۔ علاوں ازیں اس بحر میں ’’بنوائے‘‘ کے بجائے ’’بنائے‘‘ استعمال کریں، بنوائے پر زبان اٹکتی ہے۔

"پیسہ آتے ساتھ بڑھے گی لالچ بیٹے عمران "
سچ ہوتی محسوس ہوئی یہ بات مجھے اب دادی کی
پہلا مصرعہ بحر سے خارج معلوم ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ ’’آتے ساتھ‘‘ شاید فصاحت کے خلاف ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں
پیسہ جوں جوں بڑھتا ہے، بڑھتی ہے لالچ بھی عمرانؔ

دعاگو،
راحلؔ
 
آخری تدوین:
میری ناچیز رائے میں دوسرے مصرعے کی روانی اب بھی توجہ طلب ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں
گاؤں کی جب اک پڑھی لکھی لڑکی نے بھاگ کے شادی کی


کون لٹ چکے تھے؟ کس نے دوبارہ لوٹا؟ خواب دکھا کر بربادی کا لوٹے ہوئے پیسے سے لندن میں بنائے محلوں کا تعلق ۔۔۔ یہ سب نکات اب بھی جواب طلب اور آپ کی توجہ کے متقاضی ہے۔ علاوں ازیں اس بحر میں ’’بنوائے‘‘ کے بجائے ’’بنائے‘‘ استعمال کریں، بنوائے پر زبان اٹکتی ہے۔


پہلا مصرعہ بحر سے خارج معلوم ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ ’’آتے ساتھ‘‘ شاید فصاحت کے خلاف ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں
پیسہ جوں جوں بڑھتا ہے، بڑھتی ہے لالچ بھی عمرانؔ

دعاگو،
راحلؔ

غزل

ہم کو دو انصاف فقط اب بات نہیں آزادی کی
میں نہیں کہتا یہ ہے رائے میری پوری وادی کی

وہ دن دور نہیں جب پنچھی پنجرا توڑ کے نکلیں گے
اور اڑیں گے آزاد ہوا میں ، بات ہو گی آزادی کی

ان سب بچیوں پر تعلیم کے دروازے تب بند ہوئے
گاؤں کی جب اک پڑھی لکھی لڑکی نے بھاگ کے شادی کی

تم نے بڑی آزادی کر لی ، اب ہر جرم کی بھگتو سزا
ہمکو خواب دکھا کر تم نے ہماری بہت بربادی کی

ٹیکس کا پیسہ مل کر کھا گئے ظالم بے ایمان وزیر
اور ترکاری کھانے والوں کی روٹی تک آدھی کی

" پیسہ جوں جوں بڑھتا ہے، بڑھتی ہے لالچ بھی عمرانؔ "
سچ ہوتی محسوس ہوئی یہ بات مجھے اب دادی کی
 
Top