محمد اسامہ یوسف
محفلین
غزل برائے اصلاح.
چلو اس دام تنہائی سے باہر دیکھتے ہیں
نکل کر بزم رعنائی سے باہر دیکھتے ہیں
یقیں کے پختہ پنجر میں کئ روزن تراشے
اور اب زندان بینائ سے باہر دیکھتے ہیں
غریبوں بے کسوں کی کون اب سنتا ہے پیارے
یہ منصف کب شناسائی سے باہر دیکھتے ہیں
میاں دیکھو تماشا تو نہیں یوں خودکشی بھی
یہ باغی وقت پیمائ سے باہر دیکھتے ہیں
بھلا ساری جوانی اک محبت میں اجاڑیں
الم کچھ ہجر ہرجائی سے باہر دیکھتے ہیں
مقفل ہو چکے اب مسجد و مہ خانہ ہم پر
سو اب اس شہر رسوائ سے باہر دیکھتے ہیں
سنا ہے سال نو کا جشن ہے کل شب اسامہ
سو ہم بھی کربِ پنہائی سے باہر دیکھتے ہیں.
چلو اس دام تنہائی سے باہر دیکھتے ہیں
نکل کر بزم رعنائی سے باہر دیکھتے ہیں
یقیں کے پختہ پنجر میں کئ روزن تراشے
اور اب زندان بینائ سے باہر دیکھتے ہیں
غریبوں بے کسوں کی کون اب سنتا ہے پیارے
یہ منصف کب شناسائی سے باہر دیکھتے ہیں
میاں دیکھو تماشا تو نہیں یوں خودکشی بھی
یہ باغی وقت پیمائ سے باہر دیکھتے ہیں
بھلا ساری جوانی اک محبت میں اجاڑیں
الم کچھ ہجر ہرجائی سے باہر دیکھتے ہیں
مقفل ہو چکے اب مسجد و مہ خانہ ہم پر
سو اب اس شہر رسوائ سے باہر دیکھتے ہیں
سنا ہے سال نو کا جشن ہے کل شب اسامہ
سو ہم بھی کربِ پنہائی سے باہر دیکھتے ہیں.