غزل برائے اصلاح

غزل برائے اصلاح.

چلو اس دام تنہائی سے باہر دیکھتے ہیں
نکل کر بزم رعنائی سے باہر دیکھتے ہیں

یقیں کے پختہ پنجر میں کئ روزن تراشے
اور اب زندان بینائ سے باہر دیکھتے ہیں

غریبوں بے کسوں کی کون اب سنتا ہے پیارے
یہ منصف کب شناسائی سے باہر دیکھتے ہیں

میاں دیکھو تماشا تو نہیں یوں خودکشی بھی
یہ باغی وقت پیمائ سے باہر دیکھتے ہیں

بھلا ساری جوانی اک محبت میں اجاڑیں
الم کچھ ہجر ہرجائی سے باہر دیکھتے ہیں

مقفل ہو چکے اب مسجد و مہ خانہ ہم پر
سو اب اس شہر رسوائ سے باہر دیکھتے ہیں

سنا ہے سال نو کا جشن ہے کل شب اسامہ
سو ہم بھی کربِ پنہائی سے باہر دیکھتے ہیں.
 
جناب اسامہ صاحب، آداب!
محفل میں خوش آمدید۔ زمرہ تعارف میں اپنا تعارف کروائیے گا (اگر اب تک نہیں کروایا)۔
ماشاء اللہ اچھی کاوش ہے۔ آپ کی غزل پڑھ جو تاثرات قائم ہوئے، وہ یہاں بیان کررہا ہوں۔ اسے اصلاح نہ سمجھئے گا، کہ وہ میرا منصب ہے نہ ہی مجھ میں اس کی اہلیت۔ یہ چند سطور محض باہمی تبادلہ خیال اور تعلیم و تعلم کی نیت سے قلم برداشتہ کررہا ہوں۔ اصلاح ان شاء اللہ ہمارے استاد محترم جناب اعجاز عبید الف عین مدظلہ فرمائیں گے، جو اس زمرے کے سرپرست ہیں۔ اس کے علاوہ محترم ظہیراحمدظہیر صاحب بھی ایک صاحب طرز شاعر ہیں جن کی وسعت مطالعہ کا ثانی ملنا مشکل ہے۔

آپ کی غزل کی بات کروں تو مطلعے کا مفہوم واضح نہیں ہوسکا، دام تنہائی اور بزم رعنائی کا ربط سمجھ نہیں آسکا۔

یقیں کے پختہ پنجر میں کئ روزن تراشے
اور اب زندان بینائ سے باہر دیکھتے ہیں
یہاں آپ نے "پنجر" غالبا پنجرے کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ پنجر کے معروف معنی ڈھانچے، ہڈی پسلی وغیرہ کے ہیں، گوکہ لغت میں پنجرے کے معنی میں بھی مل جائے گا، مگر میرا ناچیز مشورہ ہے کہ اس کو پنجرا ہی باندھیں تاکہ مفہوم بالکل واضح رہے۔ "پنجرے" بھی وزن میں پورا آئے گا۔

میاں دیکھو تماشا تو نہیں یوں خودکشی بھی
یہ باغی وقت پیمائ سے باہر دیکھتے ہیں
پہلے مصرعے کی بنت مزید بہتر کی جاسکتی ہے۔ آپ کی مشق اچھی معلوم ہوتی ہے، سو آپ خود ہی دوبارہ فکر کرکے دیکھیں۔

بھلا ساری جوانی اک محبت میں اجاڑیں
الم کچھ ہجر ہرجائی سے باہر دیکھتے ہیں
پہلے مصرعے میں "کیوں" کے بغیر بات نہیں بن رہی، مصرعے میں تاکید پیدا نہیں ہورہی۔ اس کے علاوہ جوانی اجاڑنے کے بجائے جوانی برباد کرنا کہنا زیادہ فصیح ہوگا۔
ایک اور مسئلہ فاعل کہ عدم موجودگی ہے، یعنی کون جوانی اجاڑے اور کون باہر دیکھے؟؟؟ یوں سوچ کر دیکھیں
کریں برباد ہم کیوں عشق میں ساری جوانی
یا اسی طرح کا کچھ اور

مقطعے کا مفہوم بھی واضح نہیں ہوسکا۔ سال نو کے جشن کا کرب پنہائی سے کیا ربط ہے، یہ بات تشریح طلب محسوس ہوتی ہے۔

امید ہے آپ نے میری معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا۔ کوئی بات بری لگی ہو تو اس کے لئے معذرت۔

دعاگو،
راحل۔
 

الف عین

لائبریرین
محبت اجاڑنا... مجھے عجیب فعل لگا، ہجرِ ہرجائی صوتی طور پر مزے کی ترکیب لگی، لیکن عجب ضرور ہے۔ البتہ دوسرے مصرعے کا 'الم' بے محل محسوس ہوا۔ فاعل 'ہم' ہی رکھنے میں کیا حرج ہے؟ اس سے پہلے مصرع کی فاعل کی عدم موجودگی کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے
'مہ خانہ'؟ یہاں مے خانہ کا محل ہے
 
محبت اجاڑنا... مجھے عجیب فعل لگا، ہجرِ ہرجائی صوتی طور پر مزے کی ترکیب لگی، لیکن عجب ضرور ہے۔ البتہ دوسرے مصرعے کا 'الم' بے محل محسوس ہوا۔ فاعل 'ہم' ہی رکھنے میں کیا حرج ہے؟ اس سے پہلے مصرع کی فاعل کی عدم موجودگی کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے
'مہ خانہ'؟ یہاں مے خانہ کا محل ہے

میں اس شعر کو بہتر کرتا ہوں اور فاعل کی عدم موجودگی کو بھی دیکھتا ہوں
مہ خانہ اسی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے.
بہت شکریہ
 
Top