غزل برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
آئینہ سامنے ہو، ہاتھ میں پتھر نہ رہے
اب مرے شہر میں پہلے سے وہ منظر نہ رہے

نفرت و بغض کا پھیلا ہے اندھیرا ہر سو
بجھ گئے دیپ محبت کے، منور نہ رہے

ہم نے بھی سیکھ لیا وقت سے لڑنا آخر
ہم سراسیمہ بھی محتاجِ مقدر نہ رہے

بڑھ چکا عرض بہت دائرۂ وحشت کا
چاہ کر بھی کوئی اس حلقے سے باہر نہ رہے

بک چکے ہوں گے صحافت کے ادارے فائق
ورنہ ماحول سیاست کا مکدر نہ رہے
 

الف عین

لائبریرین
دو معمولی سے اسقام محسوس ہوتے ہیں
نفرت و بغض کا پھیلا ہے اندھیرا ہر سو
بجھ گئے دیپ محبت کے، منور نہ رہے
.. پھیلا ہے کی بجائے 'پھیل گیا' دوسرے مصرعے کے صیغہ سے زیادہ ہم آہنگ ہے، بجھ گئے اور نہ رہے کے افعال سے مطابقت رکھتے ہوئے
دوسری بات ۔ دائرہ کا قطر یا نصف قطر ہوتا Radius/ Diameter ہے، طول و عرض نہیں
 

محمد فائق

محفلین
بہت شکریہ سر
آپ کی بتائی ہوئی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کی ہے

تیرگی پھیل گئی چاروں طرف نفرت کی
یا
تیرگی پھیل گئی بغض و حسد کی ہر سو
بجھ گئے دیپ محبت کے، منور نہ رہے


اس قدر بڑھ گیا اس دور میں وحشت کاحصار
چاہ کر بھی کوئی اس حلقے سے باہر نہ رہے
الف عین سر
 

الف عین

لائبریرین
بغض و حسد کے ساتھ دیپ کا ہندی لفظ ذرا فٹ نہیں لگتا۔ نفرت کے ساتھ ٹھیک رہے گا۔
حصار والا شعر درست ہو گیا
 
Top