تمام ہی قوافی میں ے کا اسقاط ہورہا ہے، جو روانی کو متاثر کرتا ہے۔ آن کے بعد، جان کے بعد، ڈھان کے بعد ۔۔۔ اگر ہزج میں ہی شعر پڑھتے زبان اٹکنے لگے تو فائدہ!
مطلع دولخت ہے۔ دونوں مصرعے مربوط نہیں، بلکہ ہر مصرعہ اپنے اندر الگ مضمون لئے ہوئے ہے۔ ایک شعر کے دو مصرعوں میں بیان کا تسلسل ہونا ضروری ہے، وگرنہ شعر معیوب گردانا جاتا ہے۔
تمھارے در گدا گر ہوں نظر کی آس لے کر
نہیں ہو گی ضرورت کچھ تمہارے پانے کے بعد
’’تمہارے در گداگر‘‘ چہ معنی؟
در کا گداگر ہونا چاہیئے ۔۔۔ بلکہ گداگر بھی نہیں ۔۔۔ شعری اصطلاح میں اس مفہوم کو نبھانے کے لئے محض گدا کہا جاتا ہے۔ گداگر سے عموماً پیشہ ور مانگنے والے مراد ہوتے ہیں۔
مزید برآں، ’’تمہارے پانے کے بعد‘‘ بھی غلط اسلوب ہے ۔۔۔ ’’تمہیں پانے کے بعد‘‘ کہنا چاہیئے۔
’’کچھ ضرورت‘‘ سے بھی مفہوم مکمل ادا نہیں ہوتا ۔۔۔ یہاں ’’کچھ بھی‘‘ یا ’’کوئی بھی‘‘ کا محل ہے۔
معافی کی طلب کرتے نظر آتے ہیں ظالم
بڑی ہی دیر کردی ہے ستم کو ڈھانے کے بعد
’’معافی کی طلب‘‘ نہیں کی جاتی ۔۔۔ ’’معافی طلب‘‘ کرنا درست محاورہ ہے!
نیز ’’ستم کو ڈھانا‘‘ بھی محاورے کے خلاف ہے ۔۔۔ ’’ستم ڈھانا‘‘ درست ہوتا ہے۔
خفا ہونا نہیں اتنا برا لیکن ذرا سوچو
بہار آتی نہیں جلدی خزاں کے چھانے کے بعد
پہلا مصرعہ آپ کی چنیدہ بحر میں نہیں، بلک ہزج سالم میں ہے (مفاعیلن ضرب ۴)
ایک بار پھر ۔۔۔ ’’خزاں کے چھانے‘‘ میں کے زائد ہے ۔۔۔ ’’خزاں چھانا‘‘ درست محاورہ ہے۔
نظر کو دیدہ ور کر دیا تمہاری اک نظر نے
اب اور کچھ راس نہ آئے تمہارے بھانے کے بعد
پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہے۔ ’’کردیا‘‘ میں دیا کے الف کا اسقاط ٹھیک نہیں۔
نظریں دیدہ ور کیسے ہوتی ہیں؟ یہ بات خود بھی قابلِ غور ہے!
دوسرے مصرعے میں ’’نہ‘‘ کو دوحرفی باندھا گیا ہے، جو ناپسندیدہ ہے۔
’’اب اور‘‘ کو ’’ اَبُر‘‘ پڑھنا پڑھ رہا ہے، جو ٹھیک نہیں۔ وصالِ الف کے ساتھ بھی ’’ اب اور‘‘ کو ’’ اَ بَور‘‘ تقطیع کیا جائے گا، جس کی وجہ سے مصرعہ بحر سے خارج ہوجائے گا۔
دعاگو،
راحلؔ۔