غزل برائے اصلاح

Qadeer khan

محفلین
خیال اپنا نہیں رہتا تمھارے آنے کے بعد
تمھیں محسوس کرتا ہوں تمہارے جانے کے بعد
تمھارے در گدا گر ہوں نظر کی آس لے کر
نہیں ہو گی ضرورت کچھ تمہارے پانے کے بعد
معافی کی طلب کرتے نظر آتے ہیں ظالم
بڑی ہی دیر کردی ہے ستم کو ڈھانے کے بعد
خفا ہونا نہیں اتنا برا لیکن ذرا سوچو
بہار آتی نہیں جلدی خزاں کے چھانے کے بعد
نظر کو دیدہ ور کر دیا تمہاری اک نظر نے
اب اور کچھ راس نہ آئے تمہارے بھانے کے بعد




 

Qadeer khan

محفلین
اچھی بات ہے.مگر مجھے میرے مضامین پورے کرنے تھے.
.آئندہ مستعمل بحر میں کہوں گا.وزن یہ ہے.
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فعولن
 

الف عین

لائبریرین
'نے کے بعد' کو فعولن کس طرح بنایا جا سکتا ہے؟ 'ن کے بع' تو مکن ہے، لیکن آنے کی ے کو گرایا نہیں جا سکتا
 
تمام ہی قوافی میں ے کا اسقاط ہورہا ہے، جو روانی کو متاثر کرتا ہے۔ آن کے بعد، جان کے بعد، ڈھان کے بعد ۔۔۔ اگر ہزج میں ہی شعر پڑھتے زبان اٹکنے لگے تو فائدہ!

مطلع دولخت ہے۔ دونوں مصرعے مربوط نہیں، بلکہ ہر مصرعہ اپنے اندر الگ مضمون لئے ہوئے ہے۔ ایک شعر کے دو مصرعوں میں بیان کا تسلسل ہونا ضروری ہے، وگرنہ شعر معیوب گردانا جاتا ہے۔

تمھارے در گدا گر ہوں نظر کی آس لے کر
نہیں ہو گی ضرورت کچھ تمہارے پانے کے بعد
’’تمہارے در گداگر‘‘ چہ معنی؟
در کا گداگر ہونا چاہیئے ۔۔۔ بلکہ گداگر بھی نہیں ۔۔۔ شعری اصطلاح میں اس مفہوم کو نبھانے کے لئے محض گدا کہا جاتا ہے۔ گداگر سے عموماً پیشہ ور مانگنے والے مراد ہوتے ہیں۔
مزید برآں، ’’تمہارے پانے کے بعد‘‘ بھی غلط اسلوب ہے ۔۔۔ ’’تمہیں پانے کے بعد‘‘ کہنا چاہیئے۔
’’کچھ ضرورت‘‘ سے بھی مفہوم مکمل ادا نہیں ہوتا ۔۔۔ یہاں ’’کچھ بھی‘‘ یا ’’کوئی بھی‘‘ کا محل ہے۔

معافی کی طلب کرتے نظر آتے ہیں ظالم
بڑی ہی دیر کردی ہے ستم کو ڈھانے کے بعد
’’معافی کی طلب‘‘ نہیں کی جاتی ۔۔۔ ’’معافی طلب‘‘ کرنا درست محاورہ ہے!
نیز ’’ستم کو ڈھانا‘‘ بھی محاورے کے خلاف ہے ۔۔۔ ’’ستم ڈھانا‘‘ درست ہوتا ہے۔

خفا ہونا نہیں اتنا برا لیکن ذرا سوچو
بہار آتی نہیں جلدی خزاں کے چھانے کے بعد
پہلا مصرعہ آپ کی چنیدہ بحر میں نہیں، بلک ہزج سالم میں ہے (مفاعیلن ضرب ۴)
ایک بار پھر ۔۔۔ ’’خزاں کے چھانے‘‘ میں کے زائد ہے ۔۔۔ ’’خزاں چھانا‘‘ درست محاورہ ہے۔

نظر کو دیدہ ور کر دیا تمہاری اک نظر نے
اب اور کچھ راس نہ آئے تمہارے بھانے کے بعد
پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہے۔ ’’کردیا‘‘ میں دیا کے الف کا اسقاط ٹھیک نہیں۔
نظریں دیدہ ور کیسے ہوتی ہیں؟ یہ بات خود بھی قابلِ غور ہے!
دوسرے مصرعے میں ’’نہ‘‘ کو دوحرفی باندھا گیا ہے، جو ناپسندیدہ ہے۔
’’اب اور‘‘ کو ’’ اَبُر‘‘ پڑھنا پڑھ رہا ہے، جو ٹھیک نہیں۔ وصالِ الف کے ساتھ بھی ’’ اب اور‘‘ کو ’’ اَ بَور‘‘ تقطیع کیا جائے گا، جس کی وجہ سے مصرعہ بحر سے خارج ہوجائے گا۔

دعاگو،
راحلؔ۔
 
الف اضافے کے ساتھ فعولان وزن پر ہے
بھائی مسئلہ ’’بعد‘‘ کے ساتھ نہیں ہے، ’’نے‘‘ کے ساتھ ہے!!!
آپ آخری رکن کو فعولن باندھیں یا فعولان، ’’نے‘‘ فعولن کے ’’ف‘‘ کے مقابل ہی آئے گا! نتیجتاً ’’آنے کے بعد، جانے کے بعد، ڈھانے کے بعد‘‘ وغیرہ کو ’’آن کےبعد، جان کے بعد۔۔۔‘‘ پڑھنا پڑے گا!
 

Qadeer khan

محفلین
بھائی مسئلہ ’’بعد‘‘ کے ساتھ نہیں ہے، ’’نے‘‘ کے ساتھ ہے!!!
آپ آخری رکن کو فعولن باندھیں یا فعولان، ’’نے‘‘ فعولن کے ’’ف‘‘ کے مقابل ہی آئے گا! نتیجتاً ’’آنے کے بعد، جانے کے بعد، ڈھانے کے بعد‘‘ وغیرہ کو ’’آن کےبعد، جان کے بعد۔۔۔‘‘ پڑھنا پڑے گا!
کیا نے کی یا گرائی جا سکتی ہے؟ نہیں تو کیوں نہیں میں نے تو پڑھا تھا ہندی ے گرائی جا سکتی ہے
 
اصولاً گرائی جاسکتی ہے، مگر اسقاط حروف ۲ جمع ۲ کا قاعدہ نہیں ہے۔ اگر روانی خلل آتا ہو، یا اسقاط کے بعد لفظ کا معنی بدل رہا ہو تو اساتذہ اس سے احتراز کی صلاح دیتے ہیں۔
جانے کی ے اگر ساقط کردی جائے تو جان بنتا ہے، جو معنی کے اعتبار سے علیحدہ، مستقل لفظ ہے۔
باقی آپ کی مرضی!
 

Qadeer khan

محفلین
اصولاً گرائی جاسکتی ہے، مگر اسقاط حروف ۲ جمع ۲ کا قاعدہ نہیں ہے۔ اگر روانی خلل آتا ہو، یا اسقاط کے بعد لفظ کا معنی بدل رہا ہو تو اساتذہ اس سے احتراز کی صلاح دیتے ہیں۔
جانے کی ے اگر ساقط کردی جائے تو جان بنتا ہے، جو معنی کے اعتبار سے علیحدہ، مستقل لفظ ہے۔
باقی آپ کی مرضی!
اچھی بات ہے.بہت بہت شکریہ
 
Top