فیضان قیصر
محفلین
جسے دیکھیے وہ مریضِ انا ہے
مرض غالِباً یہ وبا بن چکا ہے
چھٹی گرد منظر سے تب یہ کھلا ہے
تعلق لڑائی میں مارا گیا ہے
میں دشتِ جفا کا مسافر رہا ہوں
الم آشنا ہوں خدا جانتا ہے
مقید نہ کر طائرِ فکر کو تُو
کہ منطق کی پرواز عقدہ کشا ہے
بہلتا نہیں ہوں میں جھوٹی ادا سے
مرا دل محبت کو پہچانتا ہے
عجب رنگ ہے ان دنوں میرے دل کا
نہ خوش آشنا ہے نہ ٖغم آشنا ہے
سبھی سے ہی تُو مسکرا کر ملا کر
کسی کو ترے غم سے کیا واسطہ ہے
انھوں نے تو فیضان ہے تجھ کو پایا
ذرا تُو بتا نا تجھے کیا ملا ہے
مرض غالِباً یہ وبا بن چکا ہے
چھٹی گرد منظر سے تب یہ کھلا ہے
تعلق لڑائی میں مارا گیا ہے
میں دشتِ جفا کا مسافر رہا ہوں
الم آشنا ہوں خدا جانتا ہے
مقید نہ کر طائرِ فکر کو تُو
کہ منطق کی پرواز عقدہ کشا ہے
بہلتا نہیں ہوں میں جھوٹی ادا سے
مرا دل محبت کو پہچانتا ہے
عجب رنگ ہے ان دنوں میرے دل کا
نہ خوش آشنا ہے نہ ٖغم آشنا ہے
سبھی سے ہی تُو مسکرا کر ملا کر
کسی کو ترے غم سے کیا واسطہ ہے
انھوں نے تو فیضان ہے تجھ کو پایا
ذرا تُو بتا نا تجھے کیا ملا ہے