غزل برائے اصلاح

محمل ابراہیم

لائبریرین
تم جو آئے ہو تعارف بھی کراتے جانا
مجھ سے ملنے کے مقاصد بھی بتاتے جانا

آج میں درد سے روئی ہوں لپٹ کر گھنٹوں
کچھ نئے درد مجھے پھر بھی تھماتے جانا

مجھ پہ جچتی ہے تڑپ اور چبھن زخموں کی
نت نئے طرز سے تم مجھ کو ستاتے جانا

خوابِ غفلت میں پڑے سوئے ہیں زیرِ گردوں
لاؤ اک بانگ درا سب کو جگاتے جانا

ہر تعلّق نہیں پابندِ ضرورت ہوتا
تم ہی یہ بات سر عام بتاتے جانا

جس جگہ عقل کی ہے جہت دھری رہ جاتی
اس جگہ عشق کے جادو کو چلاتے جانا

سحر اب بس کرو مانا کی زباں رکھتی ہو
یہ بھی کیا طرز ہے،ہمراز بناتے جانا
 
جس جگہ عقل کی ہے جہت دھری رہ جاتی
اس جگہ عشق کے جادو کو چلاتے جانا
اس شعر کو دوبارہ کہیے۔ پہلے مصرع کی بندش بہتر کیجیے۔ دوسرے مصرع میں عشق کے جادو کو جگانا درست نہیں۔ عشق کا جادو جگایا جاتا ہے، جادو کو جگایا نہیں جاتا۔
 
آج میں درد سے روئی ہوں لپٹ کر گھنٹوں
کچھ نئے درد مجھے پھر بھی تھماتے جانا

مجھ پہ جچتی ہے تڑپ اور چبھن زخموں کی
نت نئے طرز سے تم مجھ کو ستاتے جانا
اچھا کہا ہے!

سحر اب بس کرو مانا کی زباں رکھتی ہو
یہ بھی کیا طرز ہے،ہمراز بناتے جانا
آپ کا تخلص غالباً سحر بمعنی صبح ہے؟ اگر ایسا ہے تو پہلا مصرع بحر میں نہیں ہے کیونکہ سحر بمعنی صبح میں ح پر زبر ہوتا ہے، یعنی اس کا تلفظ سَ+حَرْ ہوتا ہے۔
سحر فاعلاتن یا فعلاتن کے مقابل نہیں آ سکتا۔
اگر سحر بمعنی جادو ہے تو ٹھیک ہے۔
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
اصلاح کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



تم جو آئے ہو تعارف بھی کراتے جانا
مجھ سے ملنے کے مقاصد بھی بتاتے جانا

آج میں درد سے روئی ہوں لپٹ کر گھنٹوں
کچھ نئے درد مجھے پھر بھی تھماتے جانا

مجھ پہ جچتی ہے تڑپ اور چبھن زخموں کی
نت نئے طرز سے تم مجھ کو ستاتے جانا

خوابِ غفلت میں پڑے سوئے ہیں زیرِ گردوں
لاؤ اک بانگ درا سب کو جگاتے جانا

ہر تعلّق نہیں پابندِ ضرورت ہوتا
تم ہی یہ بات سر عام بتاتے جانا

جس جگہ عقل کی تدبیر نہ کچھ کام آئے
اس جگہ عشق کا تم جادو جگاتے جانا

اب تو بس کردو سحر گو کہ زباں رکھتی ہو
یہ بھی کیا طرز ہے،ہمراز بناتے جانا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
مفعول غائب ہے!!!
سر میں اسکی وضاحت چاہتی ہوں۔میں اسے ٹھیک طریقے سے سمجھ نہیں پائی۔مفعول جس پر کام کا اسے پڑے اُسے ہی کہتے ہیں نہ؟؟؟؟
 

الف عین

لائبریرین
مفعول غائب سے مراد یہ ہے کہ واضح نہیں کہ کس سے لپٹ کر؟ اکیلے اپنے آپ سے تو نہیں لپٹا جاتا نا!
مجھے یہ اشعار درست نہیں لگے
خوابِ غفلت میں پڑے سوئے ہیں زیرِ گردوں
لاؤ اک بانگ درا سب کو جگاتے جانا
... بانگ درا لائی جاتی ہے؟ کون سوئے ہیں، دوسرے مصرعے میں 'ہم کو جگاتے' ہو تو واضح ہو جاتی ہے بات میرے خیال میں

ہر تعلّق نہیں پابندِ ضرورت ہوتا
تم ہی یہ بات سر عام بتاتے جانا
... پہلا مصرع واضح اور رواں نہیں

جس جگہ عقل کی تدبیر نہ کچھ کام آئے
اس جگہ عشق کا تم جادو جگا تے جانا
.. جادو کا و کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا
عشق کا سحر استعمال کر کے دیکھو
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
سر اب دیکھئے!

آ گئے ہو تو تعارف بھی کراتے جانا
مجھ سے ملنے کے مقاصد بھی بتاتے جانا

آج میں عکس سے خود اپنے لپٹ کر روئی
کچھ نئے درد مجھے پھر بھی تھماتے جانا

مجھ پہ جچتی ہے تڑپ اور چبھن زخموں کی
نت نئے طرز سے تم مجھ کو ستاتے جانا

خلق غفلت میں پڑی سوئی ہے زیرِ گردوں
صور کے مثل تم اک پھونک لگاتے جانا

ہر تعلّق کو ضرورت نہیں پیدا کرتی
ہیں جو خود غرض اُنہیں تم یہ بتاتے جانا

جس جگہ عقل کی تدبیر نہ کچھ کام آئے
اس جگہ عشق کا تم سحر چلاتے جانا

اب تو بس کردو سحر گو کہ زباں رکھتی ہو
یہ بھی کیا طرز ہے،ہمراز بناتے جانا
 

الف عین

لائبریرین
صور کے مثل پھونک... اور پھونک ماری جاتی ہے، لگائی نہیں۔
خود غرض میں ر متحرک ہے یعنی زبر ہونا چاہیے، تم نے ساکن باندھا ہے۔
خود غرض ہیں جو... کر دو
سحر چلاتے جانا.... سحر جگانا بھی درست محاورہ ہے، چلانا کی جگہ وہی استعمال کرو
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
استاذی درج ذیل اشعار کی یہ شکل قابلِ قبول ہے؟؟

خلق غفلت میں پڑی سوئی ہے زیرِ گردوں
سب ہوں بیدار سدا ایسی لگاتے جانا
یا
سب ہوں بیدار تم اک بانگ لگاتے جانا

ہر تعلّق کو ضرورت نہیں پیدا کرتی
خود غرض ہیں جو انہیں تم یہ بتاتے جانا
 

Anees jan

محفلین
آپ کا تخلص غالباً سحر بمعنی صبح ہے؟ اگر ایسا ہے تو پہلا مصرع بحر میں نہیں ہے کیونکہ سحر بمعنی صبح میں ح پر زبر ہوتا ہے، یعنی اس کا تلفظ سَ+حَرْ ہوتا ہے۔
سحر فاعلاتن یا فعلاتن کے مقابل نہیں آ سکتا۔
اگر سحر بمعنی جادو ہے تو ٹھیک ہے۔
یہاں الف وصل نہیں ہو سکتا کیا؟؟
 
Top