محمل ابراہیم

لائبریرین
چلو بےسبب ہم یوں ہی مسکرائیں
محبّت کے قصے سنیں اور سنائیں

یہ نفرت کی آندھی ہے دمدار کتنی
جلا کر دیئے اس کا زور آزمائیں

یوں چپ چاپ سہتے رہیں ظلم کب تک
جب ایسے ہے جینا تو ہم مر نہ جائیں

عبادت ہے جنت تو خدمت خدا ہے
کریں خدمتِ خلق اور رب کو پائیں

یہ آنسو نہیں یہ ہیں شبنم کے قطرے
گرا کر کلی پر اسے گل بنائیں

عبادت کدے کو بھی تم نے نہ بخشا
تمہیں اور کتنا نظر سے گرائیں

یہ جو زِندگی ہے یہ ہے رب کی نعمت
اسے عیش و عشرت میں کیوں ہم گنوائیں

جو سورج کی کرنیں ہیں آنگن میں اتریں
ہم اپنے لئے ان سے جُگنو بنائیں

سحؔر ٹوٹے دل کو چلو جوڑتے ہیں
یہ دل خانۂ رب ہے اس کو بچائیں
یا
کہ محشر میں یہ نیکیاں کام آئیں
یا
کہ کچھ نیکیاں کاش ہم بھی کمائیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ٹیگ کرنا سیکھ لو بیٹا! میں تو پہلے ٹیگ دیکھ کر اس مراسلے میں گھستا ہوں، اور یہ مکمل ہونے کے بعد جدید مراسلے کے ایک یا دو صفحات، اس میں اگر اوراد و اذکار کے ہی مراسلے نظر آئیں تو تیسرے صفحہ تک بھی چلا جاتا ہوں، کبھی اس سے پہلے ہی اٹھنا پڑ جاتا ہے۔ جیسے آج نہیں دیکھے تھے مراسلے تو سوتے وقت آ گیا، اور اب سونے جا رہا ہوں۔ غزل بعد میں!
 
چلو بےسبب ہم یوں ہی مسکرائیں
محبّت کے قصے سنیں اور سنائیں
یوں تو ٹھیک ہے، مگر مطلع کمزور ہے۔
یوں ہی کی واؤ اگر ساقط کرنا مقصود ہو، تو اس کو یونہی لکھنا چاہیے، تاکہ قاری کو ابہام نہ ہو۔

یہ نفرت کی آندھی ہے دمدار کتنی
جلا کر دیئے اس کا زور آزمائیں
نفرت کی آندھی ہے تو اس کا زور آزمانے کے لئے بھی کوئی مخصوص دیا ہی جلایا جانا چاہیے، مجرد دیوں کے ذکر سے شعر تشنۂ معنی رہ جاتا ہے۔

یوں چپ چاپ سہتے رہیں ظلم کب تک
جب ایسے ہے جینا تو ہم مر نہ جائیں
الفاظ کی ترتیب بدل کر دیکھیں کہ مصرعے زیادہ رواں اور بیان زیادہ موکد ہوتا ہے یا نہیں؟ مثلاً
سہیں ظلم چپ چاپ کب تک ہم آخر!
یوں جینے سے بہتر ہے ہم مر ہی جائیں

عبادت ہے جنت تو خدمت خدا ہے
کریں خدمتِ خلق اور رب کو پائیں
عبادت اور خدمت سے جنت اور خدا مل تو سکتے ہیں، مگر یہ دونوں خود کیسے بالترتیب جنت اور خدا ہوسکتے ہیں؟

یہ آنسو نہیں یہ ہیں شبنم کے قطرے
گرا کر کلی پر اسے گل بنائیں
کون گرا کر؟؟؟ فاعل واضح نہیں ہے۔

عبادت کدے کو بھی تم نے نہ بخشا
تمہیں اور کتنا نظر سے گرائیں
دنوں مصرعوں میں ربط؟ یہ شعر شدید عجزِ بیان کا شکار ہے۔

یہ جو زِندگی ہے یہ ہے رب کی نعمت
اسے عیش و عشرت میں کیوں ہم گنوائیں
پہلے مصرعے میں ’’جو‘‘ بھرتی کا لگتا ہے، اس کے علاوہ یہ اور ہے کی تکرار سے بھی بچنے کی کوشش کریں۔

جو سورج کی کرنیں ہیں آنگن میں اتریں
ہم اپنے لئے ان سے جُگنو بنائیں
مفہوم واضح نہیں ہوا۔ سورج کی کرنوں سے جگنو کیسے بنیں گے؟؟؟ اور دن کی روشنی میں جگنو بنانے کا کیا فائدہ ۔۔۔ پتہ بھی نہیں چلے گا کہ مال ٹھیک بنا ہے یا ڈیفیکٹڈ ہے :)

سحؔر ٹوٹے دل کو چلو جوڑتے ہیں
یہ دل خانۂ رب ہے اس کو بچائیں
یا
کہ محشر میں یہ نیکیاں کام آئیں
یا
کہ کچھ نیکیاں کاش ہم بھی کمائیں
پہلا آپشن بہتر ہے ۔۔۔ مگر میرے خیال میں بچائیں کو سجائیں کردیں تو زیادہ مناسب رہے گا۔

دعاگو،
راحلؔ۔
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
کافی دنوں بعد اس غزل کی طرف رجوع کر پائی ۔
اُستاد محترم جناب احسن سمیع: راحل صاحب آپ سے نظر ثانی کی درخواست ہے۔۔۔۔



چلو بے سبب ہم یونہی مسکرائیں
کہ کچھ دیر ہر رنج و غم بھول جائیں

بہت شور کرتی ہوا چل رہی ہے
جلا کر دیئے اس کا زور آزمائیں

سہیں ظلم چپ چاپ کب تک ہم آخر!
یوں جینے سے بہتر ہے ہم مر ہی جائیں

نہ جانے ہماری چلے سانس کب تک
کیوں گمراہیوں میں یوں عقبیٰ گنوائیں

محبت کی میٹھی زباں بول کر ہم
مخالف کو بھی آؤ اپنا بنائیں

ہو جس قدر ہم سے بنیں ہم سہارا
ضرورت میں ہر اک کی ہم کام آئیں

ہاں یہ زندگی اپنی ہے رب کی نعمت
اسے عیش و عشرت میں کیوں ہم گنوائیں

سحؔر ٹوٹے دل کو چلو جوڑتے ہیں
یہ دل خانۂ رب ہے اس کو سجائیں
 
Top