محمل ابراہیم
لائبریرین
میں ذکر یار سر عام کرنے آئی ہوں
متاعِ جان میں نیلام کرنے آئی ہوں
وہ طور و طرز کہ ہو جس سے بشریت زخمی
میں اُن اصولوں کا اتمام کرنے آئی ہوں
مری نوائے دل افگار کو یوں ہی نہ سمجھ
پیامِ فردا ترے نام کرنے آئی ہوں
ملائے خاک میں اعلیٰ نظام تم نے جو
میں اُن نظام کو پھر عام کرنے آئی ہوں
جو روند ڈالتے ہیں پل میں لہلہاتے چمن
میں اُن درندوں کا اتمام کرنے آئی ہوں
مری حیات کہ مانند اک حباب ہے جو
سحؔر ہوں اپنی یہاں شام کرنے آئی ہوں
متاعِ جان میں نیلام کرنے آئی ہوں
وہ طور و طرز کہ ہو جس سے بشریت زخمی
میں اُن اصولوں کا اتمام کرنے آئی ہوں
مری نوائے دل افگار کو یوں ہی نہ سمجھ
پیامِ فردا ترے نام کرنے آئی ہوں
ملائے خاک میں اعلیٰ نظام تم نے جو
میں اُن نظام کو پھر عام کرنے آئی ہوں
جو روند ڈالتے ہیں پل میں لہلہاتے چمن
میں اُن درندوں کا اتمام کرنے آئی ہوں
مری حیات کہ مانند اک حباب ہے جو
سحؔر ہوں اپنی یہاں شام کرنے آئی ہوں
آخری تدوین: