غزل برائے اصلاح

محمل ابراہیم

لائبریرین
میں ذکر یار سر عام کرنے آئی ہوں
متاعِ جان میں نیلام کرنے آئی ہوں

وہ طور و طرز کہ ہو جس سے بشریت زخمی
میں اُن اصولوں کا اتمام کرنے آئی ہوں

مری نوائے دل افگار کو یوں ہی نہ سمجھ
پیامِ فردا ترے نام کرنے آئی ہوں

ملائے خاک میں اعلیٰ نظام تم نے جو
میں اُن نظام کو پھر عام کرنے آئی ہوں

جو روند ڈالتے ہیں پل میں لہلہاتے چمن
میں اُن درندوں کا اتمام کرنے آئی ہوں

مری حیات کہ مانند اک حباب ہے جو
سحؔر ہوں اپنی یہاں شام کرنے آئی ہوں
 
آخری تدوین:
میں ذکر یار سر عام کرنے آئی ہوں
متاعِ جان میں نیلام کرنے آئی ہوں
میرا خیال ہے کہ کسرہِ اضافت سے بنائی گئی تراکیب میں مضاف الیہ میں اعلانِ نون کرنا جائز نہیں؟ یعنی متاعِ جاں کہا جائے گا، نہ کہ متاعِ جان ۔۔۔ واللہ اعلم۔

وہ طور و طرز کہ ہو جس سے بشریت زخمی
میں اُن اصولوں کا اتمام کرنے آئی ہوں
پہلے مصرعے میں بشریت کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے۔ بشریت میں ش مفتوح ہے، یعنی بَ+شَرْ+یَتْ ۔۔۔ جبکہ آپ نے ش کو ساکن کردیا ہے۔ اصل تلفظ کے ساتھ مصرع خارج از بحر ہوجاتا ہے۔
میرے خیال میں تو ’’اتمام کرنا‘‘ کہنے میں کوئی مسئلہ نہیں، بہر حال اساتذہ بہتر بتا سکتے ہیں۔

مری نوائے دل افگار کو یوں ہی نہ سمجھ
پیامِ فردا ترے نام کرنے آئی ہوں
یہاں ’’یوں ہی‘‘ کے بجائے ’’یونہی‘‘ لکھنا زیادہ بہتر رہے گا تاکہ قاری کو اندازہ رہے کہ و ساقط ہو رہی ہے۔
پیامِ فردا سے کیا مراد ہے؟

ملائے خاک میں اعلیٰ نظام تم نے جو
میں اُن نظام کو پھر عام کرنے آئی ہوں
کون سے اعلیٰ نظام؟؟؟
’’اُن نظام‘‘ کہنا غلط ہے، اُن کے ساتھ جمع کا صیغہ آئے گا۔ بہتر یہ ہے کہ پہلے مصرعے میں ملائے کے بجائے ملایا کر دیں، اور دوسرے میں اُن کو اُس سے بدل دیں۔

جو روند ڈالتے ہیں پل میں لہلہاتے چمن
میں اُن درندوں کا اتمام کرنے آئی ہوں
میرے خیال میں پہلے مصرعے میں روند کی ن تقطیع میں گرائی نہیں جاسکتی، کیونکہ یہ فارسی الاصل لفظ ہے۔ جیسے رنگ میں ن کا اسقاط نہیں کیا جاسکتا!

مری حیات کہ مانند اک حباب ہے جو
سحؔر ہوں اپنی یہاں شام کرنے آئی ہوں
شعر عجز بیان کا شکار معلوم ہوتا ہے۔ حیات کے حباب آسا ہونے سے شام سحر او شام کا کیا تعلق؟
 
Top