غزل برائے اصلاح

محمل ابراہیم

لائبریرین
محترم اساتذہ کرام جناب الف عین،
سید عاطف علی
محمد خلیل الرحمٰن
محمد احسن سمیع: راحل

آداب آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے____

اُداس تنہا،کھڑی ہوں گم سم،ہیں مجھ میں پنہاں ہزارہا غم
ہیں سرد آہیں،اُداس راہیں،امید زخمی،یقین بے دم


شکستہ دل کے ہزار ٹکڑے بکھر کے سینے میں چبھ رہے ہیں
بلاؤ یاروں کو اور توڑیں لگائیں خنجر کہ زخم ہیں کم


بلا بلا کر سمیٹ لی ہیں ہجوم دنیا کی نالشوں کو
وجود گھائل،ہے روح زخمی،بے ربط رنجش نہ تال نہ سم


یوں پھوٹتا ہے ہر ایک رگ سے لہو کا دریا کہ جس کی تیزی
اُدھیڑ ڈالے ہے خال و خد کو کرید ڈالے ہے دل کو پیہم


سحؔر یہی ہے اُصولِ دنیا ملیں گے ہر جا زہر کے پیالے
تو اس کی تلخی کو ہنس کے پی جا نہ لب پہ شکوہ نہ آنکھ ہو نم
 
شکستہ دل کے ہزار ٹکڑے بکھر کے سینے میں چبھ رہے ہیں
بلاؤ یاروں کو اور توڑیں لگائیں خنجر کہ زخم ہیں کم
خنجر لگانا مجھے محاورتاً درست نہیں لگتا۔ بیان بھی اتنا مربوط نہیں لگتا۔
دلِ شکستہ کی کرچیاں چبھ رہی سینے میں، پھر بھی یارو
نکالو خنجر، چلاؤ نشتر کہ زخم میرے ہیں اب بھی کچھ کم

بلا بلا کر سمیٹ لی ہیں ہجوم دنیا کی نالشوں کو
وجود گھائل،ہے روح زخمی،بے ربط رنجش نہ تال نہ سم
پہلا مصرع گرامر کے حساب سے ٹھیک نہیں لگتا۔ ’’سمیٹ لی ہیں‘‘ کے بعد صرف ’’نالشیں‘‘ آنا چاہیے، یا پھر پہلے ’’سمیٹ لیا ہے‘‘ کہیں۔
تاہم اصل سوال یہ ہے کہ نالشوں کو ’’بلا بلا‘‘ کر کیسے سمیٹا جاسکتا ہے؟
دوسرے مصرعے میں ’’بے ربط‘‘ میں ’’ے‘‘ کا اسقاط ٹھیک نہیں، اسے ’’بربط‘‘ تقطیع نہیں کر سکتے۔ ویسے ’’بے ربط رنجش‘‘ سے کیا مراد ہے؟

یوں پھوٹتا ہے ہر ایک رگ سے لہو کا دریا کہ جس کی تیزی
اُدھیڑ ڈالے ہے خال و خد کو کرید ڈالے ہے دل کو پیہم
پہلے مصرعے میں ’’جس‘‘ کے بجائے ’’اِس‘‘ زیادہ مناسب نہیں رہے گا؟؟؟

سحؔر یہی ہے اُصولِ دنیا ملیں گے ہر جا زہر کے پیالے
تو اس کی تلخی کو ہنس کے پی جا نہ لب پہ شکوہ نہ آنکھ ہو نم
زہر میں ہ ساکن ہے، یعنی یہ زَہ+رْ تقطیع ہوگا۔ اس کے علاوہ پیالہ بھی کیونکہ فارسی الاصل ہے، اس لئے اس کی ی کو ہندی الفاظ کی طرح مخلوط برتنا ٹھیک نہیں۔ اسے پالا کے بجائے پِ+یا+لا ہی تقطیع کرنا چاہیے۔

دعاگو،

راحلؔ۔
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
محترم اساتذہ سے نظر ثانی کی ملتجی______



اُداس تنہا،کھڑی ہوں گم سم،ہیں مجھ میں پنہاں ہزارہا غم
ہیں سرد آہیں،اُداس راہیں،امید زخمی،یقین بے دم


کلستے زخموں نے مار ڈالا ہے، پھر بھی یاروں
نکالو خنجر،چلاؤ نشتر کہ زخم میرے ہیں اب بھی کچھ کم


دلِ شکستہ میں دفن ہو کر یوں خواہشوں نے وفات پا لی
سو دل کی دنیا بہت ہے سونی کہ کھو دیا اس شہر نے دم خم

یا

نہ اب تمنّائے دل ہے زندہ کہ کھو دیا اس شہر نے دم خم


یوں پھوٹتا ہے ہر ایک رگ سے لہو کا دریا کہ اس کی تیزی
اُدھیڑ ڈالے ہے خال و خد کو کرید ڈالے ہے دل کو پیہم


سحؔر یہی ہے اُصولِ دنیا ملیں گے زخموں پہ زخم گہرے
تو اس کی کلفت کو ہنس کے سہہ جا نہ لب پہ شکوہ نہ آنکھ ہو نم
 
Top