فیضان قیصر
محفلین
میرے سر پر ہے آسماں سائیں
پھر بھی کتنا ہوں بے اماں سائیں
خوش گمانی ہے اب علاجِ غم
اس لیے بھی ہوں خوش گماں سائیں
کر لیا نا! خدا کو بھی مشکوک
اور سلجھاؤ گتھیاں سائیں
گھر تو اپنا میں چھوڑ آیا ہوں
دل مگر رہ گیا وہاں سائیں
ایک بے کیف رابطے کے سوا
کچھ نہیں اپنے درمیاں سائیں
میں ازل سے ہوں بدگماں سب سے
آپ سے بھی ہوں بدگماں سائیں
کیا میں آرام پاسکوں گا کبھی
کچھ تو فرماؤ، ہاں کہ ناں سائیں
میں بھی دیکھوں کہ کون ہے فیضان
اس کو بلوا ئیے یہاں سائیں
پھر بھی کتنا ہوں بے اماں سائیں
خوش گمانی ہے اب علاجِ غم
اس لیے بھی ہوں خوش گماں سائیں
کر لیا نا! خدا کو بھی مشکوک
اور سلجھاؤ گتھیاں سائیں
گھر تو اپنا میں چھوڑ آیا ہوں
دل مگر رہ گیا وہاں سائیں
ایک بے کیف رابطے کے سوا
کچھ نہیں اپنے درمیاں سائیں
میں ازل سے ہوں بدگماں سب سے
آپ سے بھی ہوں بدگماں سائیں
کیا میں آرام پاسکوں گا کبھی
کچھ تو فرماؤ، ہاں کہ ناں سائیں
میں بھی دیکھوں کہ کون ہے فیضان
اس کو بلوا ئیے یہاں سائیں