فیضان قیصر
محفلین
دل کو غم سے نجات تھوڑی ہے
بس خوشی ہی حیات تھوڑی ہے
کیوں بتا ؤں کہ پیار ہے تم سے
یہ بتا نے کی بات تھوڑی ہے
تجھ سے مانگیں دلیل ہونے کی
سب کی اتنی بساط تھوڑی ہے
خود کو میں خود بچا کے لایا ہوں
اس میں قسمت کا ہاتھ تھوڑی ہے
تم سے ملکر میں خوش تو ہوں لیکن
اس خوشی کو ثبات تھوڑی ہے
میں تو اکثر اداس رہتا ہوں
بس دسمبر کی بات تھوڑی ہے
تیری قدرت میں جتنی ہے فیضان
بس یہ ہی کائنات تھوڑی ہے
بس خوشی ہی حیات تھوڑی ہے
کیوں بتا ؤں کہ پیار ہے تم سے
یہ بتا نے کی بات تھوڑی ہے
تجھ سے مانگیں دلیل ہونے کی
سب کی اتنی بساط تھوڑی ہے
خود کو میں خود بچا کے لایا ہوں
اس میں قسمت کا ہاتھ تھوڑی ہے
تم سے ملکر میں خوش تو ہوں لیکن
اس خوشی کو ثبات تھوڑی ہے
میں تو اکثر اداس رہتا ہوں
بس دسمبر کی بات تھوڑی ہے
تیری قدرت میں جتنی ہے فیضان
بس یہ ہی کائنات تھوڑی ہے