غزل برائے اصلاح

فیضان قیصر

محفلین
تیرگی، روشنی، آگہی کچھ نہیں
ہیں سبھی عارضی دائمی کچھ نہیں

خواب و حسرت کا ہے اک تماشا فقط
اور اس کے سوا زندگی کچھ نہیں

دورِ حاضر میں دولت بڑی چیز ہے
راستی، دوستی، مخلصی کچھ نہیں

ایک میری ہی مجھ میں کمی ہے فقط
اور اس کے علاوہ کمی کچھ نہیں

تم بھی ہو خوب، میں بھی ہوں اچھا مگر
اس جہاں کے لیے لازمی کچھ نہیں


کیا کہوں آپ سے میں کہ کیوں ہوں اداس
چھوڑیے، جانے دیجیے، اجی کچھ نہیں

کیا فقط میرے الفاظ ہی تلخ ہیں؟
آپ کی بے رخی، بے حسی کچھ نہیں؟

ان سبھی سے ہوں فیضان میں آشنا
محفلیں، مہہ کشی، ہمدمی کچھ نہیں
 
تیرگی، روشنی، آگہی کچھ نہیں
ہیں سبھی عارضی دائمی کچھ نہیں

خواب و حسرت کا ہے اک تماشا فقط
اور اس کے سوا زندگی کچھ نہیں

دورِ حاضر میں دولت بڑی چیز ہے
راستی، دوستی، مخلصی کچھ نہیں

ایک میری ہی مجھ میں کمی ہے فقط
اور اس کے علاوہ کمی کچھ نہیں

تم بھی ہو خوب، میں بھی ہوں اچھا مگر
اس جہاں کے لیے لازمی کچھ نہیں


کیا کہوں آپ سے میں کہ کیوں ہوں اداس
چھوڑیے، جانے دیجیے، اجی کچھ نہیں

کیا فقط میرے الفاظ ہی تلخ ہیں؟
آپ کی بے رخی، بے حسی کچھ نہیں؟

ان سبھی سے ہوں فیضان میں آشنا
محفلیں، مہہ کشی، ہمدمی کچھ نہیں
بہت خوب غزل ہے فیضان بھائی۔ داد قبول فرمائیے۔

صرف املا کی ایک غلطی نظر آئی ہمیں جو یقیناً ٹائپو ہے۔ مے کشی کو آپ مہہ کشی لکھ گئے۔
 
اچھی غزل ہے فیضان بھائی ۔۔۔ مجھے بس ایک شعر میں کچھ عجزبیان محسوس ہوا

تم بھی ہو خوب، میں بھی ہوں اچھا مگر
اس جہاں کے لیے لازمی کچھ نہیں
شاید اس لیے کہ شعر کا اسلوب ایسا ہے کہ یہاں ’’کوئی نہیں‘‘ زیادہ قرینِ محاورہ ہوگا، بہ نسبت کچھ نہیں کے۔
موجودہ صورت یہ شائبہ ہوتا ہے کچھ کی ضمیر اشخاص کے بجائے ان کی خوبیوں کی طرف لوٹ رہی ہے۔ واللہ اعلم
 

فیضان قیصر

محفلین

فیضان قیصر

محفلین
اچھی غزل ہے فیضان بھائی ۔۔۔ مجھے بس ایک شعر میں کچھ عجزبیان محسوس ہوا


شاید اس لیے کہ شعر کا اسلوب ایسا ہے کہ یہاں ’’کوئی نہیں‘‘ زیادہ قرینِ محاورہ ہوگا، بہ نسبت کچھ نہیں کے۔
موجودہ صورت یہ شائبہ ہوتا ہے کچھ کی ضمیر اشخاص کے بجائے ان کی خوبیوں کی طرف لوٹ رہی ہے۔ واللہ اعلم

بہت شکریہ راحل بھائی ،ہمیشہ کی طرح فوری جواب دینے کے لیے، اور جس شعر کی طرف آپ نے توجہ دلوائی ہے اسے بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں
 

فیضان قیصر

محفلین
اچھی غزل ہے فیضان بھائی ۔۔۔ مجھے بس ایک شعر میں کچھ عجزبیان محسوس ہوا


شاید اس لیے کہ شعر کا اسلوب ایسا ہے کہ یہاں ’’کوئی نہیں‘‘ زیادہ قرینِ محاورہ ہوگا، بہ نسبت کچھ نہیں کے۔
موجودہ صورت یہ شائبہ ہوتا ہے کچھ کی ضمیر اشخاص کے بجائے ان کی خوبیوں کی طرف لوٹ رہی ہے۔ واللہ اعلم

گو کہ ہم خوب ہیں پھر بھی مرجائیں گے
اس جہاں کے لیے لازمی کچھ نہیں

گو کہ ہم خوب ہیں پھر بھی مرجائیں گے
میری الفت تری دل کشی کچھ نہیں



اب کیا خیال ہے؟
 
گو کہ ہم خوب ہیں پھر بھی مرجائیں گے
اس جہاں کے لیے لازمی کچھ نہیں

گو کہ ہم خوب ہیں پھر بھی مرجائیں گے
میری الفت تری دل کشی کچھ نہیں



اب کیا خیال ہے؟

جون بھائی کے شعر کے کافی مماثل ہو جائے گا
کتنی دلکش ہو تم، کتنا دل جو ہوں میں
کیا غضب ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
موجودہ صورت یہ شائبہ ہوتا ہے کچھ کی ضمیر اشخاص کے بجائے ان کی خوبیوں کی طرف لوٹ رہی ہے۔ واللہ اعلم
اچھا نکتہ ہے ۔
لیکن میرے خیال میں "کچھ نہیں" کے معنی کو پہلے مصرعے کے عناصر کا متعلقہ عمومی امکان تصور کیا جاسکتا ہے ( جیسا کہ لفظ کچھ کے معنی سے بھی ظاہر ہے ) اسے ضمیر سمجھنا لازمی نہیں ۔ شعر بامعنی ہی رہتا ہے ۔ یعنی جہاں میں یہ بات کچھ لازمی نہیں کہ ہم دونوں اچھے ہو نے کے باوجود متحد نہ ہو سکیں ۔ (متحد ہونا ایک معنوی امکان ہے جس کے رد سے شعر ایک قنوطی بیانیے کی کیفیت پیدا کرتا ہے ) ۔
یہ میری رائے ہے ۔
ویسے اچھی غزل کہی ہے ۔ فیضان صاحب نے بہت خوب ۔
 
Top