فیضان قیصر
محفلین
دن ہے بے مزا ہمدم
آ مجھے ستا ہمدم
جو بھی بن چکا ہوں میں
غم کی ہے عطا ہمدم
اس لیے بھی چپ ہوں بس
اب میں تھک چکا ہمدم
دل نہیں لگا میرا
میں جہاں گیا ہمدم
کس کو ڈھونڈتا ہوں میں
کیا ہے کھو گیا ہمدم
درد کی دوا دیکر
درد کو گھٹا ہمدم
دل مرا ہے کیوں بے چین
کچھ مجھے بتا ہمدم
لے کے اپنی بانہوں میں
دے مجھے شفا ہمدم
رات اب بھی باقی ہے
بات کو بڑھا ہمدم
کھول کر قفس میرا
کر مجھے رہا ہمدم
بے پناہ ہوں حساس
یعنی ہوں گدھا ہمدم
اور کیا کہوں تم سے
اب ہے کیا بچا ہمدم
ہے کہاں پہ گم فیضان
کچھ نہیں پتہ ہمدم
آ مجھے ستا ہمدم
جو بھی بن چکا ہوں میں
غم کی ہے عطا ہمدم
اس لیے بھی چپ ہوں بس
اب میں تھک چکا ہمدم
دل نہیں لگا میرا
میں جہاں گیا ہمدم
کس کو ڈھونڈتا ہوں میں
کیا ہے کھو گیا ہمدم
درد کی دوا دیکر
درد کو گھٹا ہمدم
دل مرا ہے کیوں بے چین
کچھ مجھے بتا ہمدم
لے کے اپنی بانہوں میں
دے مجھے شفا ہمدم
رات اب بھی باقی ہے
بات کو بڑھا ہمدم
کھول کر قفس میرا
کر مجھے رہا ہمدم
بے پناہ ہوں حساس
یعنی ہوں گدھا ہمدم
اور کیا کہوں تم سے
اب ہے کیا بچا ہمدم
ہے کہاں پہ گم فیضان
کچھ نہیں پتہ ہمدم
آخری تدوین: