اسلام عامر سیتا پوری
محفلین
موت کے وار سے بچ ہی نہیں پایا کوئی
ہاں عدم جا کے تو واپس نہیں لوٹا کوئی
میں ہوں آلام و مصائب سے پریشان بہت
میں ہوں ہمراہ ترے، کاش کہ کہتا کوئی
اب وفادار کہاں مخزنِ اسرار کہاں
رازداں اپنا زمانے میں بھی ہوتا کوئی
ہجر کےغم میں تڑپتا ہوں میں ایسے جانم
جیسے تپتے ہوئے صحرا میں ہو پیاسا کوئی
اے خدا تیری ہی چوکھٹ پہ ہوں میں خیمہ زن
تیرے در کے ہے سوا ماوی نہ ملجا کوئی
آرزو ہے کہ مرا خاتمہ ایمان پہ ہو
چاہئے مال نہ دولت نہ ہی ہیرا کوئی
غمِ دوراں جو ملے ہم کو ہوا پھر ایسا
اب نہیں کوئی شناسا نہ ہی اپنا کوئی
روکتا کیسے میں اشکوں کی روانی عامر
"میرے اندر سے امڈ آیا تھا دریا کوئی"
ہاں عدم جا کے تو واپس نہیں لوٹا کوئی
میں ہوں آلام و مصائب سے پریشان بہت
میں ہوں ہمراہ ترے، کاش کہ کہتا کوئی
اب وفادار کہاں مخزنِ اسرار کہاں
رازداں اپنا زمانے میں بھی ہوتا کوئی
ہجر کےغم میں تڑپتا ہوں میں ایسے جانم
جیسے تپتے ہوئے صحرا میں ہو پیاسا کوئی
اے خدا تیری ہی چوکھٹ پہ ہوں میں خیمہ زن
تیرے در کے ہے سوا ماوی نہ ملجا کوئی
آرزو ہے کہ مرا خاتمہ ایمان پہ ہو
چاہئے مال نہ دولت نہ ہی ہیرا کوئی
غمِ دوراں جو ملے ہم کو ہوا پھر ایسا
اب نہیں کوئی شناسا نہ ہی اپنا کوئی
روکتا کیسے میں اشکوں کی روانی عامر
"میرے اندر سے امڈ آیا تھا دریا کوئی"