غزل برائے اصلاح

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترم الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، یاسر شاہ اصلاح کی درخواست ہے۔

میں جب اُس کے لیے بے خواب ہوا
کم یاب تھا وہ، نایاب ہوا

جس خواب میں دیکھا تھا اُس کو
وہ خواب بھی اب تو خواب ہوا

اب ہجر سے آنکھ سلگتی ہے
جب چہرا وہ مہتاب ہوا

کیا ڈر ہو اُسے رسوائی کا
جسے داغِ جبیں محراب ہوا

رہِ الفت میں دل والوں کو
دریا بھی اک پایاب ہوا

وہ سرد ہوا ہے اب کے چلی
ہر رگ میں لہو برفاب ہوا

کیا زہر کسی نے گھول دیا
ترے لب کا شہد زہراب ہوا

مرا سوز دروں پھر ساز بنا
جب بول ترا مضراب ہوا

اک ضبط جو ٹوٹا تو آنسو
طوفان بنا، گرداب ہوا

میں وہ اپنے دریاؤں سے لٹا
جتنا نہ کبھی سیراب ہوا
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ہے عبدالرئووف بھائی
واہ واہ
کیا کہنے بہت خوب بہت خوب !
بہت عمدہ
جیتے رہیے ڈھیر ساری دعائیں ۔
آپ سب دوستوں کی حوصلہ افزائی کا بے حد شکریہ، سلامت رہیں۔
مقبول بھائی! بہت شکریہ، سلامت رہیں
 

الف عین

لائبریرین
محترم الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، یاسر شاہ اصلاح کی درخواست ہے۔

میں جب اُس کے لیے بے خواب ہوا
کم یاب تھا وہ، نایاب ہوا
پہلا مصرع بحر سے خارج
جس خواب میں دیکھا تھا اُس کو
وہ خواب بھی اب تو خواب ہوا
درست
اب ہجر سے آنکھ سلگتی ہے
جب چہرا وہ مہتاب ہوا
دونوں مصرعوں میں ربط؟
کیا ڈر ہو اُسے رسوائی کا
جسے داغِ جبیں محراب ہوا
یہ بھی عجز بیان ہے
رہِ الفت میں دل والوں کو
دریا بھی اک پایاب ہوا
دل والوں "کو"؟ "کے لئے" مراد ہے کیا؟
وہ سرد ہوا ہے اب کے چلی
ہر رگ میں لہو برفاب ہوا
درست
کیا زہر کسی نے گھول دیا
ترے لب کا شہد زہراب ہوا
"شہد زہراب" درست وزن میں نہیں
مرا سوز دروں پھر ساز بنا
جب بول ترا مضراب ہوا
بول کن معنوں میں؟ قول؟ سمجھ میں نہیں آیا
اک ضبط جو ٹوٹا تو آنسو
طوفان بنا، گرداب ہوا
درست
میں وہ اپنے دریاؤں سے لٹا
جتنا نہ کبھی سیراب ہوا
پہلا مصرع بحر سے خارج
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
میں جب اُس کے لیے بے خواب ہوا
کم یاب تھا وہ، نایاب ہوا
پہلا مصرع بحر سے خارج
میں جس کے لیے بے خواب ہوا
اب ہجر سے آنکھ سلگتی ہے
جب چہرا وہ مہتاب ہوا
دونوں مصرعوں میں ربط؟
کیوں ہجر سے سلگے آنکھ مری
جب چہرا وہ مہتاب ہوا
رہِ الفت میں دل والوں کو
دریا بھی اک پایاب ہوا
دل والوں "کو"؟ "کے لئے" مراد ہے کیا؟
جی ہاں۔ کہنا تو اسی طرح چاہ رہا تھا۔ کچھ تبدیلی کی ہے دیکھیے اگر قابلِ قبول ہے تو۔۔۔

دل والوں کی راہوں کا ہر
دریا بھی اک پایاب ہوا
کیا زہر کسی نے گھول دیا
ترے لب کا شہد زہراب ہوا
"شہد زہراب" درست وزن میں نہیں
ترا شیریں دہن زہراب ہوا
یا
ترا شیریں لب زہراب ہوا
مرا سوز دروں پھر ساز بنا
جب بول ترا مضراب ہوا
بول کن معنوں میں؟ قول؟ سمجھ میں نہیں آیا
جی ہاں۔ اک اور صورت دیکھ لیں۔
اک ساز بنا مرا سوز، جہاں
ہر لفظ ترا مضراب ہوا
میں وہ اپنے دریاؤں سے لٹا
جتنا نہ کبھی سیراب ہوا
پہلا مصرع بحر سے خارج
وہ لٹا ہوں اپنے دریا سے
جتنا نہ کبھی سیراب ہوا
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
عبدالرؤوف بھائی ایک مشورہ۔۔۔
اتنا میں لُٹا ہوں دریا سے
جتنا نہ کبھی سیراب ہوا
شارق بھائی! آپ کی توجہ اور مشورہ کے لیے ممنون ہوں۔ لیکن میں دریا کی خود سے نسبت کا اظہار کرنا چاہ رہا تھا۔ ☺️
اچھا استاد صاحب کا انتظار کر لیتے ہیں۔ جیسے اُن کا حکم ہوا ویسے کر لیں گے۔
 

الف عین

لائبریرین
دریا بھی اک پایاب؟ بے معنی بھی ہے
شیریں لب.. بہتر ہے
امین شارق کا مشورے میں روانی بہت بہتر ہے، " اپنے دریا "سے تم کہنا کیا چاہتے ہو؟
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
دریا بھی اک پایاب؟ بے معنی بھی ہے
شیریں لب.. بہتر ہے
امین شارق کا مشورے میں روانی بہت بہتر ہے، " اپنے دریا "سے تم کہنا کیا چاہتے ہو؟
بہت بہتر ایسے ہی کر لیتا ہوں۔
استادِ محترم!میں پنجاب کا رہنے والا ہوں یہاں دریا کے پاس رہنے والوں کو دریا کی نسبت پر فخر بھی ہوتا ہے لیکن حکومتوں کی بد انتظامیوں کی وجہ سے یہ اکثر سیلابی ریلوں وغیرہ سے بھی تکلیف میں بھی رہتے ہیں۔
بس اسی کیفیت کو بیان کرنا چاہ رہا تھا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
میں جس کے لیے بے خواب ہوا
کم یاب تھا وہ، نایاب ہوا

جس خواب میں دیکھا تھا اُس کو
وہ خواب بھی اب تو خواب ہوا

کیوں ہجر سے سلگے آنکھ مری
جب چہرا وہ مہتاب ہوا

وہ سرد ہوا ہے اب کے چلی
ہر رگ میں لہو برفاب ہوا

کیا زہر کسی نے گھول دیا
ترا شیریں لب زہراب ہوا

اک ساز بنا مرا سوز، جہاں
ہر لفظ ترا مضراب ہوا

اک ضبط جو ٹوٹا تو آنسو
طوفان بنا، گرداب ہوا

اتنا میں لٹا ہوں دریا سے
جتنا نہ کبھی سیراب ہوا
 
Top