محمد فائق
محفلین
ملنے کو تو اس دور میں کیا کیا نہیں ملتا
اے دل! ترے جیسا کوئی تنہا نہیں ملتا
ہوتی بھی تو کیسے تری ہمراہی میسر
گلشن کے برابر کبھی صحرا نہیں ملتا
یادیں ہیں کسی کی کہ جو فرصت نہیں دیتی
تنہائی میں بھی خود کو میں تنہا نہیں ملتا
ہوتی ہے تری بزم میں دل جوئی سبھی کی
بس ایک مرے غم کا مداوا نہیں ملتا
سنسان ہوا کرتی ہے راہِ سفرِ عشق
لغزش پہ یہاں کوئی سہارا نہیں ملتا
یہ بھول ہے تیری کہ تُو بے چین کرے گی
جا تجھ سے میں اے خواہشِ دنیا! "نہیں ملتا"
بہتر تو یہی تھا کہ تمنا ہی نہ کرتے
اس دہر میں کچھ حسبِ تمنا نہیں ملتا
کیا خاک نبھاپائیں گے دنیا سے تعلق
رشتہ کوئی خود سے بھی ہمارا نہیں ملتا
احوال مرا پوچھنے کیوں آتے وہ فائق
اک پیاسے سے آکر کبھی دریا نہیں ملتا
اے دل! ترے جیسا کوئی تنہا نہیں ملتا
ہوتی بھی تو کیسے تری ہمراہی میسر
گلشن کے برابر کبھی صحرا نہیں ملتا
یادیں ہیں کسی کی کہ جو فرصت نہیں دیتی
تنہائی میں بھی خود کو میں تنہا نہیں ملتا
ہوتی ہے تری بزم میں دل جوئی سبھی کی
بس ایک مرے غم کا مداوا نہیں ملتا
سنسان ہوا کرتی ہے راہِ سفرِ عشق
لغزش پہ یہاں کوئی سہارا نہیں ملتا
یہ بھول ہے تیری کہ تُو بے چین کرے گی
جا تجھ سے میں اے خواہشِ دنیا! "نہیں ملتا"
بہتر تو یہی تھا کہ تمنا ہی نہ کرتے
اس دہر میں کچھ حسبِ تمنا نہیں ملتا
کیا خاک نبھاپائیں گے دنیا سے تعلق
رشتہ کوئی خود سے بھی ہمارا نہیں ملتا
احوال مرا پوچھنے کیوں آتے وہ فائق
اک پیاسے سے آکر کبھی دریا نہیں ملتا