غزل برائے اصلاح

ماضی کے پرندے جب پَر کھول لیتی ہیں
وہ اُڑنا بھول جاتی ہے صیّاد کی نظروں میں

یہ وقت بھی گزرے گی تنہائیوں کے در پر
درِ یار سے نکلے گی اک درد سر اپنوں میں
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ہر پل تیری یاد , آباد ہے مجھ میں
گزری ہوئی ہر بات تیری یاد ہے دل میں

ممکن ہی نہیں چھوڑ دوں یہ بات
ہر بات کے پیچھے تیری بات ہے مجھ میں


نمی میری آنکھوں میں تادیر رہتی ہے
ہو تیری یاد کی روشنی دل کی سیاہ خانوں میں

ماضی کے پرندے جب پَر کھول لیتی ہیں
وہ اُڑنا بھول جاتی ہے صیّاد کی نظروں میں

یہ وقت بھی گزرے گی تنہائیوں کے در پر
درِ یار سے نکلے گی اک درد سر اپنوں میں
جیلانی صاحب! قافیہ کیا ہے اس میں؟
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جیلانی صاحب! سب سے پہلے شاعری کے حوالے سے بنیادی باتیں ذہن میں رکھیں۔
کوئی غزل ہو کہ نظم وہ مکمل ایک ہی کسی مخصوص بحر میں ہونی چاہیے۔
قافیہ و ردیف پر بھی غور کریں۔ یہ معاملات سلجھا کر پھر استاد صاحب باقی اغلاط دور فرمائیں گے۔
 
جیلانی صاحب! سب سے پہلے شاعری کے حوالے سے بنیادی باتیں ذہن میں رکھیں۔
کوئی غزل ہو کہ نظم وہ مکمل ایک ہی کسی مخصوص بحر میں ہونی چاہیے۔
قافیہ و ردیف پر بھی غور کریں۔ یہ معاملات سلجھا کر پھر استاد صاحب باقی اغلاط دور فرمائیں گے۔
بالکل آپ نے صحیح فرمایا محترم
جزاک اللہ خیرا
آیندہ مزید محنت اور فکر سے لکھنے کی کوشش کروں گا
 
Top