غزل برائے اصلاح

اس قدر بڑھ گئی ہے تنہائی
بار لگنے لگی ہے بینائی

میری امید ہے تو صرف خدا
بخدا میں نہیں ہوں ہرجائی

ایک تکمیل آرزو کے لیے
ہم نے کی آپ اپنی رسوائی

حال کہتا ہے اپنا اشکوں میں
دل کو آتی نہیں ہے گویائی

مستعد ہے ہمارے قتل پہ وہ
جن کو تھا دعویٰ مسیحائی

دل بہ امید تو رہا ہر دم
کوئی امید بر نہیں آئی

شوق کرتا ہے راستے پیدا
فرض ہے اپنا جادہ پیمائی

سید تنویر رضا
 

ارشد رشید

محفلین
اس قدر بڑھ گئی ہے تنہائی
بار لگنے لگی ہے بینائی
-- تنہائی ایک احساس ہے اسکا بینائی سے کیا تعلق ہے - میرے نزدیک یہ شعر دو لخت ہے -
میری امید ہے تو صرف خدا
بخدا میں نہیں ہوں ہرجائی
-- یہاں بھی وہی ہے - صرف خدا سے امید کو توکل کہتے ہیں اسکا وفا یا جفا سے کیا تعلق ہے ؟
حال کہتا ہے اپنا اشکوں میں
دل کو آتی نہیں ہے گویائی
-- اشکوں سے کہیئے کیونکہ اس شعر میں فاعل شاعر نہیں ہے دل ہے -
مستعد ہے ہمارے قتل پہ وہ
جن کو تھا دعویٰ مسیحائی
-- مستعد یہاں زبردستی کا لایا لفظ ہے - جو مسیحا ہے اگر وہ ہی قتل کرنے پر آمادہ ہو تو پھر وہ مستعد ہو یا نہ ہو کوئ فرق نہیں پڑتا -
دل بہ امید تو رہا ہر دم
کوئی امید بر نہیں آئی
-- میرے نزدیک بہ امید یعنی امید سے ہونا یہاں صحیح نہیں لگ رہا -

تھوڑی سی محنت سے یہ غزل اچھی ہو سکتی ہے -
 

ارشد رشید

محفلین
اوہ معاف کیجیئے گا مجھے ابھی اندازہ ہوا کہ یہاں شاعر اپنا کلام لکھ کہ محفلیں کا بھی نام لکھتے ہیں جن سے اصلاح مطلو ب ہو - آپ نے الف عین صاحب کا نام لکھا ہے تو آپ میری باتوں کو بالکل رد کر سکتے ہیں -
پیغام ڈیلیٹ اس لیئے نہیں کیا کہ پھر نجانے آُپ کیا سوچیں کہ میں نے کیا لکھا تھا جو ڈیلیٹ کر دیا-
 

الف عین

لائبریرین
اوہ معاف کیجیئے گا مجھے ابھی اندازہ ہوا کہ یہاں شاعر اپنا کلام لکھ کہ محفلیں کا بھی نام لکھتے ہیں جن سے اصلاح مطلو ب ہو - آپ نے الف عین صاحب کا نام لکھا ہے تو آپ میری باتوں کو بالکل رد کر سکتے ہیں -
پیغام ڈیلیٹ اس لیئے نہیں کیا کہ پھر نجانے آُپ کیا سوچیں کہ میں نے کیا لکھا تھا جو ڈیلیٹ کر دیا-
مجھے تو خوشی ہوتی ہے جب دوسرے احباب بھی اصلاح کے لئے تعاون کرتے ہیں، در اصل سترہ سالوں سے میں ہی مستعدی سے یہ بھاری بوجھ اٹھاتا رہا ہوں( اور بار بار تنگ آ کر محفل سے ہی راہ فرار اختیار کرچکا ہوں! )، اس لئے سبھی طالب اصلاح اراکین مجھے ضرور ٹیگ کرتے ہیں۔ سید تنویر رضا نے تو سرچ والے ٹیگ لگائے ہیں، متوجہ کرنے والے نہیں۔
آج کل تو میں نے اور بھی کم کر دیا ہے یہاں آنا کہ محمد احسن سمیع راحلؔ شکیل احمد خان23 ، عظیم اور یاسر شاہ کے علاوہ آپ بھی دل چسپی لے رہے ہیں۔ جزاک اللہ خیر ۔اپنے کلام سے بھی مستفید کریں۔
میں ارشد رشید سے مکمل اتفاق رکھتا ہوں اس غزل کے بارے میں۔
 
اس قدر بڑھ گئی ہے تنہائی
بار لگنے لگی ہے بینائی
-- تنہائی ایک احساس ہے اسکا بینائی سے کیا تعلق ہے - میرے نزدیک یہ شعر دو لخت ہے -
میری امید ہے تو صرف خدا
بخدا میں نہیں ہوں ہرجائی
-- یہاں بھی وہی ہے - صرف خدا سے امید کو توکل کہتے ہیں اسکا وفا یا جفا سے کیا تعلق ہے ؟
حال کہتا ہے اپنا اشکوں میں
دل کو آتی نہیں ہے گویائی
-- اشکوں سے کہیئے کیونکہ اس شعر میں فاعل شاعر نہیں ہے دل ہے -
مستعد ہے ہمارے قتل پہ وہ
جن کو تھا دعویٰ مسیحائی
-- مستعد یہاں زبردستی کا لایا لفظ ہے - جو مسیحا ہے اگر وہ ہی قتل کرنے پر آمادہ ہو تو پھر وہ مستعد ہو یا نہ ہو کوئ فرق نہیں پڑتا -
دل بہ امید تو رہا ہر دم
کوئی امید بر نہیں آئی
-- میرے نزدیک بہ امید یعنی امید سے ہونا یہاں صحیح نہیں لگ رہا -

تھوڑی سی محنت سے یہ غزل اچھی ہو سکتی ہے -
محترم آپ نے جتنے اعتراضات اُٹھائے ہیں ، واللہ سب کے سب
واقعی اور وقوعی ہیں،اِنھیں رد نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واہ!
 

ارشد رشید

محفلین
مجھے تو خوشی ہوتی ہے جب دوسرے احباب بھی اصلاح کے لئے تعاون کرتے ہیں، در اصل سترہ سالوں سے میں ہی مستعدی سے یہ بھاری بوجھ اٹھاتا رہا ہوں( اور بار بار تنگ آ کر محفل سے ہی راہ فرار اختیار کرچکا ہوں! )، اس لئے سبھی طالب اصلاح اراکین مجھے ضرور ٹیگ کرتے ہیں۔ سید تنویر رضا نے تو سرچ والے ٹیگ لگائے ہیں، متوجہ کرنے والے نہیں۔
آج کل تو میں نے اور بھی کم کر دیا ہے یہاں آنا کہ محمد احسن سمیع راحلؔ شکیل احمد خان23 ، عظیم اور یاسر شاہ کے علاوہ آپ بھی دل چسپی لے رہے ہیں۔ جزاک اللہ خیر ۔اپنے کلام سے بھی مستفید کریں۔
میں ارشد رشید سے مکمل اتفاق رکھتا ہوں اس غزل کے بارے میں۔

جناب داغ کی زمین میں ایک غزل کہی تھی ، وہ آپ کے کہنے پر پیش کرتا ہوں - اس کو میرے خیال میں ایک نئئ لڑی میں لکھنا چاہیئے ؟
 
Top