سید تنویر رضا
محفلین
محترم الف عین سر
اصلاح کا طالب ہوں
غزل
دیکھا ہے سر بام کسی چاند کو جب سے
مانوس ہوئے جاتے ہیں تاریکی شب سے
بیتاب سدا رہتا ہے یادوں میں کسی کی
امید بھی کیا ہو دل آزار طلب سے
کردار سے اپنے ہے یہ توقیر ہماری
ہم وہ نہیں جو جانے گئے نام و نسب سے
زندہ ہیں تو تکلیف کا احساس ہے لازم
کیوں کھائے بھلا خوف غم و رنج و تعب سے
کرتے ہیں وہی کام جو مرغوب ہو دل کو
قبل اس کے مگر مشورہ کرلیتے ہیں سب سے
ممکن ہے کہاں ہم کو نظر آئے حقیقت
آنکھوں میں سجا رکھے ہیں کچھ خواب عجب سے
شہرہ ہے بہت اپنی فصاحت کا جہاں میں
توہین بھی کرتے ہیں رقیبوں کی ادب سے
ہم ایسے سخنور ہیں کہ تنویر جہاں کو
دیوانہ بنالیتے ہیں یک جنبش لب سے کے
اصلاح کا طالب ہوں
غزل
دیکھا ہے سر بام کسی چاند کو جب سے
مانوس ہوئے جاتے ہیں تاریکی شب سے
بیتاب سدا رہتا ہے یادوں میں کسی کی
امید بھی کیا ہو دل آزار طلب سے
کردار سے اپنے ہے یہ توقیر ہماری
ہم وہ نہیں جو جانے گئے نام و نسب سے
زندہ ہیں تو تکلیف کا احساس ہے لازم
کیوں کھائے بھلا خوف غم و رنج و تعب سے
کرتے ہیں وہی کام جو مرغوب ہو دل کو
قبل اس کے مگر مشورہ کرلیتے ہیں سب سے
ممکن ہے کہاں ہم کو نظر آئے حقیقت
آنکھوں میں سجا رکھے ہیں کچھ خواب عجب سے
شہرہ ہے بہت اپنی فصاحت کا جہاں میں
توہین بھی کرتے ہیں رقیبوں کی ادب سے
ہم ایسے سخنور ہیں کہ تنویر جہاں کو
دیوانہ بنالیتے ہیں یک جنبش لب سے کے