محمد فائق
محفلین
دل کو غموں کے بوجھ سے کیسے رہا کریں
اوروں سے حالِ زار کا کیا تذکرہ کریں
ٹھہری ہوئی حیات تحرک کی منتظر
راہیں ہوں سامنے تو کوئی فیصلہ کریں
دل دے چکے ہیں عہدِ وفا اور کیا نبھائیں
پتھر کو بت بنائیں، بشر کو خدا کریں
بنتے ہیں قہقہے بھی اداسی کے ترجمان
آتا نہیں یقین تو خود تجربہ کریں
ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں آواز ہی نہ دے
اتنا ضمیر پر نہ تشدد کیا کریں
اپنی شکستہ حالی سے اٹھتی نہیں نظر
دنیا! ترے حَسین نظاروں کا کیا کریں
امید کا ہے کیا وہ ہمیشہ سے ساتھ ہے
حالات بھی تو حق میں کبھی فیصلہ کریں
عقل و جنوں ہیں دونوں کی راہیں جدا جدا
الجھیں ہوئے ہیں ہم کہ کسے رہنما کریں
فائق! نہیں فراق جنہیں عیب جوئی سے
وہ اپنے سامنے بھی ذرا آئینہ کریں
اوروں سے حالِ زار کا کیا تذکرہ کریں
ٹھہری ہوئی حیات تحرک کی منتظر
راہیں ہوں سامنے تو کوئی فیصلہ کریں
دل دے چکے ہیں عہدِ وفا اور کیا نبھائیں
پتھر کو بت بنائیں، بشر کو خدا کریں
بنتے ہیں قہقہے بھی اداسی کے ترجمان
آتا نہیں یقین تو خود تجربہ کریں
ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں آواز ہی نہ دے
اتنا ضمیر پر نہ تشدد کیا کریں
اپنی شکستہ حالی سے اٹھتی نہیں نظر
دنیا! ترے حَسین نظاروں کا کیا کریں
امید کا ہے کیا وہ ہمیشہ سے ساتھ ہے
حالات بھی تو حق میں کبھی فیصلہ کریں
عقل و جنوں ہیں دونوں کی راہیں جدا جدا
الجھیں ہوئے ہیں ہم کہ کسے رہنما کریں
فائق! نہیں فراق جنہیں عیب جوئی سے
وہ اپنے سامنے بھی ذرا آئینہ کریں