غزل برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
قریبِ نہر ہوں لیکن بہت ہی پیاسا ہوں
میں گویا ایک حقیقت نہیں فسانہ ہوں

ہوں راہِ صبر پہ یہ اطمینان ہے ویسے
مگر یہ دل میں خلش ہے کہ ڈگمگایا ہوں

نہ غم گسار نہ مونس نہ کوئی یار و رفیق
ہوں سب کے ساتھ بظاہر، مگر اکیلا ہوں

سرشت کہتی ہے کچھ وقت کا تقاضہ کچھ
میں دو رقیبوں کے مابین بوکھلایا ہوں

کسی کی وجہِ خلش تو کسی کا وجہِ سکوں
کہیں پہ تیرہ شبی ہوں کہیں سویرا ہوں

دکھائی دیتا میں دینا ترے حساب سے کیوں
کوئی کہانی کا کردار ہوں تماشا ہوں

یہ اور بات کہ حالات میرے حق میں نہیں
کوئی یہ سمجھے نہ فائق کہ میں شکستہ ہوں
 

الف عین

لائبریرین
قریبِ نہر ہوں لیکن بہت ہی پیاسا ہوں
میں گویا ایک حقیقت نہیں فسانہ ہوں
کچھ دو لختی کا احساس ہو رہا ہے، قریب نہر بھی عربی فارسی کی ملی جلی ترکیب ہے لیکن قابل قبول لگتی ہے۔ ثانی مصرع بدلنے کی کوشش کرو
ہوں راہِ صبر پہ یہ اطمینان ہے ویسے
مگر یہ دل میں خلش ہے کہ ڈگمگایا ہوں
ڈگمگایا بطور صفت استعمال ہوا ہے حالانکہ یہ محض فعل ہے، درست ڈگمگایا ہوا ہوں
نہ غم گسار نہ مونس نہ کوئی یار و رفیق
ہوں سب کے ساتھ بظاہر، مگر اکیلا ہوں
درست
سرشت کہتی ہے کچھ وقت کا تقاضہ کچھ
میں دو رقیبوں کے مابین بوکھلایا ہوں
بوکھلایا بھی ڈگمگایا کی ہی طرح ہے
کسی کی وجہِ خلش تو کسی کا وجہِ سکوں
کہیں پہ تیرہ شبی ہوں کہیں سویرا ہوں
تیرہ شبی حالت کا نام ہے، اسم نہیں
کہیں ہوں رات اندھیری....
سویرا کے ساتھ بہتر ہوگا
دکھائی دیتا میں دینا ترے حساب سے کیوں
کوئی کہانی کا کردار ہوں تماشا ہوں
د ے ن ا ۔یا د ن ی ا؟ دنیا ہو تو ٹھیک ہے
یہ اور بات کہ حالات میرے حق میں نہیں
کوئی یہ سمجھے نہ فائق کہ میں شکستہ ہوں
درست
 
Top