سید ذیشان
محفلین
ہوتی ہے نام رب سے ہر اک شے کی ابتدا
ہیں مطلع کلام یہی ہستی و سما
دیکھی جو چشم دل سے یہ تصویر کائنات
ادراک کے پنچھی پہ یوں رضواں کا در کھلا
ہے ہستیء برہنہ کی ہر شے میں جلوہ گر
پوشیدہء نظر نہیں ہر سو ہے آئینہ
توحیدکےگو سب ہی ہیں تکوین میں قائل
گرچہ کہ شورشیں ہیں بظاہر یہاں بپا
حسن و زر و جلال وحکومت کی شکل میں
ہر اک نے اپنے واسطے ہیں گھڑ لئے خدا
عزم بلال سہہ نہ سکا گرم ریگزار
اب بھی سنائی دیتی احد کی ہے واں صدا
کعبہ کے شہر میں ہے کیا ساعت سعید
ہر آنکھ دیکھتی ہے سوئے دار آمنہ
تھا صبح خوش نصیب کا وہ جن کو انتظار
خورشیدِ فخرِ چرخِ نبوت لو آ گیا
ہیں نین میرے فرقت دیدار سے یوں نم
پر دل ازل سے ہے مرامحبوب آشنا
عاصی ہوں مگر آس ہے وہ شافع ہنگام
اک جام جو نصیب ہو کوثر کے حوض کا
حیرت زدہ قلوب پہ کفار کے ہوں میں
مہتاب کا جگر ہوا اک نظر سے پارہ
ہے شوق دل میں منقبت بو تراب کا
الفاظ پر ہیں رکھتے نہیں قوت وفا
وہ حوصلہء علم علی رکھتے ہی نہیں
سینہ تبھی ہے چاک یاں ہر اک چاہ کا
منصوب تیرے نام سے یاں پر ہے جو کوئی
سنتے ہیں کہ واں ان کا ہے افلاک میں بھی چرچہ
ہے آج تک لب جاں یوں صحرا کا ہر ذرہ
مظلوم تشنہ لب ہے کیا اور کوئی مارا
یاور کوئی نہیں ہے نہ غمخوار کوئی ہے
ہر سو یوں دیکھتے ہیں شہ ارض کربلا
کرنے دو ان کو ظلم کہ ہم آزمائیں گے
دیکھی ہے کربلا میں شقاوت کی انتہا