صبیح الدین شعیبی
محفلین
سوچتا ہوں میں کہ کچھ اس طرح رونا چاہیے
اپنے اشکوں سے ترادامن بھگونا چاہیے
زندگانی کا سفر تنہا لگے مشکل بہت
اس سفرمیں ہمسفرکوئی تو ہونا چاہیے
دل بہت چھوٹا ہے میرا اور جہاں میں غم بہت
میں پریشاں ہوں کسے کیسے سمونا چاہیے
جب کبھی جیناپڑے اوروں کی مرضی پر ہمیں
اپنے ہاتھوں اپنے بیڑےکو ڈبونا چاہیے
طفل روتا ہے مگرروتا ہے وہ تقدیرپر
ماں سمجھتی ہے کہ منے کو کھلونا چاہیے
آئے ہیں لینے جو خوشیاں اپنے پیاروں کی انہیں
اپنی خاطر روٹی کپڑااور بچھونا چاہیے
اجنبی بستریہ بولا رات کے پچھلے پہر
اے صبیحِ بے وطن اب تجھ کو سونا چاہیے
اپنے اشکوں سے ترادامن بھگونا چاہیے
زندگانی کا سفر تنہا لگے مشکل بہت
اس سفرمیں ہمسفرکوئی تو ہونا چاہیے
دل بہت چھوٹا ہے میرا اور جہاں میں غم بہت
میں پریشاں ہوں کسے کیسے سمونا چاہیے
جب کبھی جیناپڑے اوروں کی مرضی پر ہمیں
اپنے ہاتھوں اپنے بیڑےکو ڈبونا چاہیے
طفل روتا ہے مگرروتا ہے وہ تقدیرپر
ماں سمجھتی ہے کہ منے کو کھلونا چاہیے
آئے ہیں لینے جو خوشیاں اپنے پیاروں کی انہیں
اپنی خاطر روٹی کپڑااور بچھونا چاہیے
اجنبی بستریہ بولا رات کے پچھلے پہر
اے صبیحِ بے وطن اب تجھ کو سونا چاہیے