غزل برائے اصلاح

کچھ الفاظ کو جکڑنے کی کوشش کی ھے.اساتذه سے رھمائی کی گزارش ھے

ﮐﯿﻮﮞ ﺍﮮ ﺻﻨﻢ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺗﮍﭘﺎ ﺭﮬﯽ ﮬﻮ
ﻭﻓﺎ ﮐﮯ ﻋﮭﺪ ﺗﻮﮌ ﮐﮯ ﺟﺎ ﺭﮬﯽ ﮬﻮ

ﺗﺮﮮ ﺑﻦ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﺌﯿﮟ
ﮔﮯ
ﮐﯿﻮﮞ ﮬﻢ ﭘﻪ ﻇﺎﻟﻢ ﺳﺘﻢ ﮈﮬﺎ ﺭﮬﯽ ﮬﻮ

ﻭﻩ ﻭﻋﺪﮮ ﻭﻩ ﻗﺴﻤﻴﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﮭﻮﭨﮯ ﺗﮭﮯ
ﺳﺐ
ﻣﺠﮭﮯ ﺁﺝ ﺑﮯ ﻣﻮﺕ ﻣﺮﻭﺍ ﺭﮬﯽ ﮬﻮ

ﻧﮕﺎﮬﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﮬﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﮬﮯ
ﭘﮭﺮﺗﯽ
ﺟﮭﺎﮞ ﺟﺎ ﺭﮬﺎ ﮬﻮﮞ ﻭﮬﯿﮟ ﺁﺭﮬﯽ ﮬﻮ

ﮔﺮﯾﺒﺎﮞ ﮐﯿﺎ ﭼﺎﮎ ﺗﯿﺮﯼ ﮬﯽ ﺧﺎﻃﺮ
ﺍﺳﮯ ﺁﺝ ﺗﻢ ﺧﻮﺩ ﮬﯽ ﺳﻠﻮﺍ ﺭﮬﯽ ﮬﻮ

ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ ﯾﻪ ﻣﻴﺮﻱ ﺧﻄﺎ ﻫﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻨﻮﺍ ﺭﮬﯽ ﮬﻮ

ﮐﺒﮭﯽ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﻣﺤﺮﻡ ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﻭﮬﯽ ﮬﻮﮞ
مجھ ﺳﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺁﺝ ﺷﺮﻣﺎ ﺭﮬﯽ ﮬﻮ
 

الفاظ کو جکڑنے سے بات نہیں بنا کرتی۔الفاظ کے پیچھے کوئی جذبہ ہونا چاہئے، کوئی فکر، کوئی پیغام، کوئی احساس؛ کچھ ایسا ہو جو آپ کے قاری کو بھی متوجہ کرے۔ اور آپ کے الفاظ کو اپنی جگہ وقیع ہونا چاہئے۔ سچی بات کہوں کہ آپ کا لکھا جو کچھ بیان کر رہا ہے، وہ سطحی قسم کے رومان سے زیادہ کچھ نہیں۔ شعر کا منصب تو کہیں بلند ہے، اور شاعر کا بھی۔
 
الفاظ کو جکڑنے سے بات نہیں بنا کرتی۔الفاظ کے پیچھے کوئی جذبہ ہونا چاہئے، کوئی فکر، کوئی پیغام، کوئی احساس؛ کچھ ایسا ہو جو آپ کے قاری کو بھی متوجہ کرے۔ اور آپ کے الفاظ کو اپنی جگہ وقیع ہونا چاہئے۔ سچی بات کہوں کہ آپ کا لکھا جو کچھ بیان کر رہا ہے، وہ سطحی قسم کے رومان سے زیادہ کچھ نہیں۔ شعر کا منصب تو کہیں بلند ہے، اور شاعر کا بھی۔
میں کوئی اقبال یا غالب نھیں میرا فکر احساس سب کیلئے نھیں ھو سکتا میں شعر نھیں بحر کی اصلاح کی گزازش کررھا ھوں.
 
اقبال اور غالب کے علاوہ میر، داغ، سودا، فانی، آتش، فیض، امجد، ندیم، ساغر، ۔۔۔ سب کو سامنے رکھنا ہو گا، بھائی۔

رہی بحر کی بات تو اس میں زیادہ مصرعے ’’فعولن فعولن فعولن فعولن‘‘ پر پورے اترتے ہیں۔ اقبال کے اِن اشعار کی بحر سامنے رکھئے :
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرزِ انکار کیا تھی
بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی
تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
فسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی
۔۔
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں​
۔۔۔
بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ اپنے مصرعوں کو پہلے خود پرکھئے ، اور فروگزاشتوں کو مارک کر لیجئے۔ ان کودرست کرنے کی مقدور بھر سعی کیجئے، مشکل پیش آئے تو کسی سے بھی پوچھ لینے میں کوئی قباحت نہیں، تاہم پہل آپ کو کرنی ہو گی۔

برائے توجہ: جناب ،الف عین صاحب۔
 
شکریه آسی صاحب میں نے بھی اسی بحر میں لکھنے کی کوشش کی ھے.دراصل کسی نے اس مصرع پر غزل لکھنے کیلئے دیا تھا.میں نے سوچا اس بحر کی غلطیاں آپ اساتذه نشاندھی کریں گے.بہت شکر گزار ھوں آپ کا محترم محمد یعقوب آسی صاحب
 
خاصی محنت کی ضرورت ہے۔۔ کچا پن پایا جاتا ہے۔ بحر کے علاوہ بھی غزل میں کوئی پختہ خیال یا شاعری والی خصوصیت نہیں پائی جا رہی۔
یا تو یہ محترم کی رحیم کی کوئی پرانی کاوش ہے یا افسوس کے ساتھ کہوں گا کہ شعر و شاعری آپ کو کافی کم علاقہ ہے۔ بہر حال، اشعار دیکھیں، پڑھیں، سمجھیں تاکہ شاعری کے مزاج کا اندازہ ہو سکے۔
گستاخی معاف۔
والسلام۔
 
خاصی محنت کی ضرورت ہے۔۔ کچا پن پایا جاتا ہے۔ بحر کے علاوہ بھی غزل میں کوئی پختہ خیال یا شاعری والی خصوصیت نہیں پائی جا رہی۔
یا تو یہ محترم کی رحیم کی کوئی پرانی کاوش ہے یا افسوس کے ساتھ کہوں گا کہ شعر و شاعری آپ کو کافی کم علاقہ ہے۔ بہر حال، اشعار دیکھیں، پڑھیں، سمجھیں تاکہ شاعری کے مزاج کا اندازہ ہو سکے۔
گستاخی معاف۔
والسلام۔
شکریه جناب درست فرمایا آپ نے مجھے شاعری میں کوئی فھم نھیں .ھے .اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کروں گا
 
جھاں جا رھا ھوں وھیں آر ھی ھو.. اس مصرع پر

اگر اس مصرع پر آپ چند اشعار کھیں گے تو مجھے کچھ شاعری کے مزاج کا اندازه ھوگا.کیونکه مجهے یه مصرع ديا اك دوست نے تو میں ایسے ھی چند الفاظ جکڑ کر پیش کئے.میں آپ لوگوں سے سیکھنا چاھتا ھوں مزمل شیخ بسمل
 
چلئے صاحب، ہم کچھ نشان دہی دیتے ہیں۔
مزمل شیخ بسمل صاحب نے بہت سچی اور کھری بات کی ہے۔
اور جناب بلوچ صاحب، جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ شاعری لفظوں کو جکڑنے کا نام بالکل نہیں۔ اس پر آپ کا یہ فرمانا کہ مجھے شاعری کا کچھ فہم نہیں ہے۔ شاعری کے لئے اصولی طور پر فہم و ادراک کی سطح ایک عام قاری کی نسبت بلند تر ہونی چاہئے کہ آپ کو تو اپنے قارئین کی فکری طور پر بھی راہنمائی کرنی ہے، اور اظہار کی سطح پر بھی۔

بہ ایں ہمہ آپ کی کاوش کو دیکھتے ہیں۔
 
ﮐﯿﻮﮞ ﺍﮮ ﺻﻨﻢ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺗﮍﭘﺎ ﺭﮬﯽ ﮬﻮ
ﻭﻓﺎ ﮐﮯ ﻋﮭﺪ ﺗﻮﮌ ﮐﮯ ﺟﺎ ﺭﮬﯽ ﮬﻮ
صنم سے مراد چاہے مذکر ہو یا مؤنث، لفظی سطح پر اس کو مذکر سمجھا اور لکھا جائے گا۔
عہد ۔۔ یہاں اس مصرعے میں اس کی بندش غلط ہے۔ آپ اس کو (ع + ہد) پڑھ رہے ہیں جب کہ درست (عہ+د) ہے۔

ﺗﺮﮮ ﺑﻦ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﺌﯿﮟ ﮔﮯ
ﮐﯿﻮﮞ ﮬﻢ ﭘﻪ ﻇﺎﻟﻢ ﺳﺘﻢ ﮈﮬﺎ ﺭﮬﯽ ﮬﻮ
خیال اور مضمون پر مزمل شیخ بسمل صاحب کا ارشاد بہت کافی ہے۔ لفظی سطح پر نو مشق کے لئے شاید یہ کافی ہو، بہ شرطے کہ وہ اس پر مطمئن ہو کر نہ بیٹھ جائے۔

ﻭﻩ ﻭﻋﺪﮮ ﻭﻩ ﻗﺴﻤﻴﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﮭﻮﭨﮯ ﺗﮭﮯ ﺳﺐ
ﻣﺠﮭﮯ ﺁﺝ ﺑﮯ ﻣﻮﺕ ﻣﺮﻭﺍ ﺭﮬﯽ ﮬﻮ
پہلے مصرعے کو یوں دیکھئے: ’’وہ وعدے وہ قسمیں سبھی جھوٹ تھے کیا‘‘ ۔ دوسرا مصرع وہی ہے فلمی قسم کا رومان جسے شاعری تسلیم کرنا ذرا مشکل ہے۔

ﻧﮕﺎﮬﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﮬﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﮬﮯ ﭘﮭﺮﺗﯽ
ﺟﮭﺎﮞ ﺟﺎ ﺭﮬﺎ ﮬﻮﮞ ﻭﮬﯿﮟ ﺁﺭﮬﯽ ﮬﻮ
شعر کے معیار پر بات کرنا یہاں کچھ مفید نہیں لگ رہا۔ دونوں مصرعوں میں معنوی رابطہ یا تو کمزور ہے یا پھر شاعر عامیانہ پن کا شکار ہو کر کیا کا کیا کہہ گیا۔ یعنی تم میرے پیچھے لگی ہوئی ہو؟ نگاہوں میں کسی صورت کا پھرنا معروف نہیں، بسنا معروف ہے اور وہ صورت غیاب کی ہوتی ہے، حضور کی نہیں۔

ﮔﺮﯾﺒﺎﮞ ﮐﯿﺎ ﭼﺎﮎ ﺗﯿﺮﯼ ﮬﯽ ﺧﺎﻃﺮ
ﺍﺳﮯ ﺁﺝ ﺗﻢ ﺧﻮﺩ ﮬﯽ ﺳﻠﻮﺍ ﺭﮬﯽ ﮬﻮ
وزن میں تو کہہ لیجئے یہ ہے؛ لیکن ہے کیا ؟ یعنی کیا محبوبہ بیوی بن گئی کہ آپ کی قمیص کی مرمت کروا رہی ہے؟

ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ ﯾﻪ ﻣﻴﺮﻱ ﺧﻄﺎ ﻫﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻨﻮﺍ ﺭﮬﯽ ﮬﻮ
یہ دونوں سطریں وزن سے بھی خارج ہیں۔ مفاہیم کے بارے میں پہلے بات ہو چکی۔ ذوقِ سلیم اس کو قبول ہی نہیں کر رہا۔ معذرت خواہ ہوں۔

ﮐﺒﮭﯽ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﻣﺤﺮﻡ ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﻭﮬﯽ ﮬﻮﮞ
مجھ ﺳﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺁﺝ ﺷﺮﻣﺎ ﺭﮬﯽ ﮬﻮ
دوسرا مصرع خارج از وزن ہے۔ باقی وہی کچھ۔

میرا خیال ہے کہ میں جناب الف عین کی خاموشی کی وجہ سمجھ رہا ہوں۔
 
اگر اس مصرع پر آپ چند اشعار کھیں گے تو مجھے کچھ شاعری کے مزاج کا اندازه ھوگا.کیونکه مجهے یه مصرع ديا اك دوست نے تو میں ایسے ھی چند الفاظ جکڑ کر پیش کئے.میں آپ لوگوں سے سیکھنا چاھتا ھوں مزمل شیخ بسمل

ایک بات ذہن میں رکھئے۔ جو مصرعِ طرح دیا جاتا ہے ضروری نہیں کہ آپ کے شعروں میں اس کا مفہوم گونجے، بلکہ بہتر یہ ہے کہ آپ اس کے معنوی اثر سے نکل کر شعر کہیں۔ ۔۔۔ ۔۔ میں شاید یہ بات بہت قبل از وقت کر رہا ہوں۔
 
میں کوئی اقبال یا غالب نھیں میرا فکر احساس سب کیلئے نھیں ھو سکتا میں شعر نھیں بحر کی اصلاح کی گزازش کررھا ھوں.
جناب رحیم ساگر بلوچ صاحب
اگر کچھ سیکھنا مطلوب ہے تو اساتذہ سے بات کرتے وقت الفاظ کے چناؤ میں احتیاط کیجئے
آپ کو جو مصرع دیا گیا تھا وہ یوں ہے

جہاں جا رہا ہوں، وہیں آ رہی ہو
اب ہم اسے توڑتے ہیں حروف میں
ف عو لن۔۔۔۔۔ ف عو لن۔۔۔۔۔ ف عو لن۔۔۔۔۔ ف عو لن
ج ہا جا ۔۔۔۔۔ ر ہا ہو ۔۔۔۔۔۔۔ و ہی آ ۔۔۔۔۔ ر ہی ہو
اس پرغور کیجئے کہ کچھ حروف یہاں توڑتے وقت لکھنے میں نہیں آئے جیسا کہ '' ں'' اور حروف کا استعمال کچھ یوں تھا
ایک حرف۔ دو حرف۔ دو حرف۔۔۔۔۔۔ایک حرف۔ دو حرف۔ دو حرف۔۔۔۔۔۔ایک حرف۔ دو حرف۔ دو حرف۔۔۔۔۔۔ایک حرف۔ دو حرف۔ دو حرف
یا
چھوٹی آواز ۔ بڑی آواز ۔ بڑی آواز ۔۔۔۔۔۔چھوٹی آواز ۔ بڑی آواز ۔ بڑی آواز ۔۔۔۔۔۔چھوٹی آواز ۔ بڑی آواز ۔ بڑی آواز ۔۔۔۔۔۔چھوٹی آواز ۔ بڑی آواز ۔ بڑی آواز

اب آپ اسی طرح کا کوئی جملہ بنائیں مثلاٰ

کہاں کا ہوں ایسا پری زاد جس پر
بچھی جا رہی ہو، مری جا رہی ہو

اب ان دونوں مصروں کو توڑتا ہوں تاکہ آپ سمجھ سکیں

ک ہا کا ۔۔۔۔۔۔ ہ ای سا ۔۔۔۔۔ پ ری زا۔۔۔۔۔۔د جس پر
ب چی جا ۔۔۔۔۔۔ ر ہی ہو ۔۔۔۔۔ م ری جا ۔۔۔۔۔ ر ہی ہو

اب آپ ایسا ہی ایک شعر اور بنانے کی کوشش کیجئے
ویسے میری ہرزہ سرائی سے اساتذہ کا انتظار صبرو تحمل سے کرنا بہتر ہے
بارک اللہ فیک
 
اگر اس مصرع پر آپ چند اشعار کھیں گے تو مجھے کچھ شاعری کے مزاج کا اندازه ھوگا.کیونکه مجهے یه مصرع ديا اك دوست نے تو میں ایسے ھی چند الفاظ جکڑ کر پیش کئے.میں آپ لوگوں سے سیکھنا چاھتا ھوں مزمل شیخ بسمل

محمد یعقوب آسی صاحب نے بہت کافی اور شافی بات کی ہے آپ کے کلام پر۔ اس کے مطابق سمجھ کر اگلی کوشش کریں۔
صلاح ہے:مصرعِ طرح پر شاعری کرنا یا مصرعے جوڑنا کوئی ایسا کمال نہیں ہے کہ جس میں تمام اشعار محض اس لئے قبول کرلیے جائیں کہ طرحی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ شاعری میں قافیہ، ردیف کی اور بحر کی بندشیں بھی ضروری ہیں، مگر یہ بھی جاننا چاہئے کہ صرف ردیف و قافیہ اور بحر کی لگام پکڑ لینے سے شعر قابو میں نہیں آتا۔ شاعری زبان کے مزاج کو سمجھ کر کی جاتی ہے اور قافیہ اور ردیف وغیرہ جیسی چیزیں شعر میں اپنا خیال ڈھالنے کے اوزار ہیں۔ اسے آپ مصوری کی مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ قوافی اور ردیف پر گرفت سے آپ صرف قلم یا مصوری کے برش کو پکڑنے پر مہارت حاصل کرتے ہیں۔ تصویر نگاری اب بھی آپ کے سوچ اور افکار پر ہی منحصر ہے۔ اب اس مختصر بات سے دو باتیں واضح ہو جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ قوافی اور ردیف اور بحر کو سیکھے بغیر آپ کا خیال چاہے کتنا ہی اونچا ہو وہ ادبی حیثیت کے اعتبار سے بے کار ہے کیونکہ آپ کو برش ہی پکڑنا نہیں آتا تو تختۂ تخلیق پر آپ اپنے تخیل کو کس صورت میں واضح کریں گے؟ دوسرا یہ کہ ان علوم کے سیکھنے کے بعد اگر آپ کے افکار و تخیلات شاعری کی سطح پر پورے نہیں اترتے تو ایسے اشعار تخلیقی اعتبار سے بے کار ہونگے۔ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔
باقی بات پھر کہیں گے۔
 
بہت شکریه جناب آسی صاحب جناب مزمل صاحب اور جناب اظھر صاحب.آپ سب کی باتیں دل پر لگیں.اور اگر زبان سے کوئی بات غلط نکلی تو گستاخی معاف
 

الف عین

لائبریرین
میں ہر وقت تو آن لائن رہتا نہیں۔ کل لاگ آف کرنے کے بعد آج آیا ہوں تو یہ غزل پہلی بار دیکھی ہے۔ میری خاموشی میں محمد یعقوب آسی بھائی کچھ معنی نہ نکالیں
۔
اس غزل یا ان اشعار کو بحر میں لانے ی کوشش تو کی جا سکتی ہے، اور شاید اگر میں سب سے پہلے یہاں پہنچتا تو ر بھی دیتا، لیکن اس سے واقعی کوئی شاعری سیکھی نہیں جا سکی۔ اصل شاعری چیزے دیگر است
 
میں ہر وقت تو آن لائن رہتا نہیں۔ کل لاگ آف کرنے کے بعد آج آیا ہوں تو یہ غزل پہلی بار دیکھی ہے۔ میری خاموشی میں محمد یعقوب آسی بھائی کچھ معنی نہ نکالیں
۔
اس غزل یا ان اشعار کو بحر میں لانے ی کوشش تو کی جا سکتی ہے، اور شاید اگر میں سب سے پہلے یہاں پہنچتا تو ر بھی دیتا، لیکن اس سے واقعی کوئی شاعری سیکھی نہیں جا سکی۔ اصل شاعری چیزے دیگر است
استاد محترم، نشاندہی بھی فرما دیجیے کہ سیکھنے کا موقع فراہم ہو! آداب!
 
Top