کاشف سعید
محفلین
اسلام و علیکم۔ ایک غزل اصلاح کے لیے پیش خدمت ہے۔
ہر زخم ہم نے کچھ اس ڈھب سے چُھپا دیا
جودردملااُس کوہنسی میں اُڑا دیا
محرابِ دل میں جلا ترے نام کا دیا
پھر گھرکو میرے اُس نے آخرجلا دیا
بےرنگ سی لگی کبھی فرحت بھی جو ملی
کُلفت نے بھی کبھی کبھی بے حد مزا دیا
آنگن میں میرے چاند تو وہ کیا اتارتا
جو اک چراغ جلتا تھا وہ بھی بجھا دیا
کیا درد میرے جو تھے میری ہی خطائیں تھیں
غم اُس نے جو سنا میرا تو مُسکرا دیا
سرکش ہے یہ بڑی تند و تیز ہے ہوا
دیکھا جو یہ تو اک دیا خوں سےجلا دیا
ارمانوں سے بنایا تھا میں نے اک محل
موج آئی بے نیاز اور سب کچھ مِٹا دیا
ہر زخم ہم نے کچھ اس ڈھب سے چُھپا دیا
جودردملااُس کوہنسی میں اُڑا دیا
محرابِ دل میں جلا ترے نام کا دیا
پھر گھرکو میرے اُس نے آخرجلا دیا
بےرنگ سی لگی کبھی فرحت بھی جو ملی
کُلفت نے بھی کبھی کبھی بے حد مزا دیا
آنگن میں میرے چاند تو وہ کیا اتارتا
جو اک چراغ جلتا تھا وہ بھی بجھا دیا
کیا درد میرے جو تھے میری ہی خطائیں تھیں
غم اُس نے جو سنا میرا تو مُسکرا دیا
سرکش ہے یہ بڑی تند و تیز ہے ہوا
دیکھا جو یہ تو اک دیا خوں سےجلا دیا
ارمانوں سے بنایا تھا میں نے اک محل
موج آئی بے نیاز اور سب کچھ مِٹا دیا