غزل برائے اصلاح

سید فصیح احمد

لائبریرین
اساتذاہ اور سینئرز سے راہنمائی کی درخواست ہے۔

میں تو نظروں کا قیدی ہوں
کہ حد بندی نہیں کوئی

ہلا دے جو یہ نیلی چھت
وہ فریادی نہیں کوئی

خیالوں میں وہ ناری ہے
تو اب سردی نہیں کوئی

چلا آرام سے خنجر
مجھے جلدی نہیں کوئی

میں تو اندر سے بنجر ہوں
کہ آبادی نہیں کوئی

حسن بازار میں بِکتا
بِنا نقدی نہیں کوئی

ہیں کپڑے عارضی احمدؔ
وہاں وردی نہیں کوئی
 

الف عین

لائبریرین
@فصیح احمد، اس غزل میں قوافی ہی غلط ہیں۔ خیالات تو اچھے ہیں۔ لیکن قوافی کی وجہ سے اصلاح سے پرے ہے یہ غزل۔ ’دی‘ مشترک حروف ہیں، لیکن ان سے پہلے؟
 

ابن رضا

لائبریرین
مزید یہ کہ غزل کا مطلع بھی لاپتا ہے، پچھلی والی میں بھی نہیں تھا تو کیا آپ جان بوجھ کر مطلع نہیں کہتے یا انجان ہیں۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
@فصیح احمد، اس غزل میں قوافی ہی غلط ہیں۔ خیالات تو اچھے ہیں۔ لیکن قوافی کی وجہ سے اصلاح سے پرے ہے یہ غزل۔ ’دی‘ مشترک حروف ہیں، لیکن ان سے پہلے؟

غلطی تسلیم کرتا ہوں استاد محترم دوبارہ انہی خیالات کو باندھتا ہوں۔ پریشان ہوں کہ اتنی بڑی غلطی کیوں کر ہوئی!! شاید خیالات اتارنے کی جلدی تھی۔
جزاک اللہ
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
مزید یہ کہ غزل کا مطلع بھی لاپتا ہے، پچھلی والی میں بھی نہیں تھا تو کیا آپ جان بوجھ کر مطلع نہیں کہتے یا انجان ہیں۔

پچھلی والی میں مطلع دانستاً چھوڑا اور اس والی میں باندھنا مشکل ہو گیا۔ مزید یہ کہ مجھے جہاں تک علم ہے مطلع ہو تو خوبصورتی پیدا ہوتی ہے لیکن مطلع شرط نہیں۔ ( اس نقطہ پر رائے دو اطراف میں بٹی ہوئی ہے )
اس کا محل نہیں لیکن ایسے ہی مقطع کے بارے بھی دو رائے موجود ہیں۔ ایک کہتے ہیں تخلص لازم ہے۔ دوسرے کہتے ہیں لازم نہیں۔
اس بارے بھی میں استاد محترم الف عین سے گزارش کروں گا کہ راہنمائی فرمائیں۔ تا کہ آئندہ غلطی کا امکان کم ہو۔
جزاک اللہ خیر برادرم
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
پچھلی والی میں مطلع دانستاً چھوڑا اور اس والی میں باندھنا مشکل ہو گیا۔ مزید یہ کہ مجھے جہاں تک علم ہے مطلع ہو تو خوبصورتی پیدا ہوتی ہے لیکن مطلع شرط نہیں۔ ( اس نقطہ پر رائے دو اطراف میں بٹی ہوئی ہے )
اس کا محل نہیں لیکن ایسے ہی مقطعہ کے بارے بھی دو رائے موجود ہیں۔ ایک کہتے ہیں تخلص لازم ہے۔ دوسرے کہتے ہیں لازم نہیں۔
اس بارے بھی میں استاد محترم الف عین سے گزارش کروں گا کہ راہنمائی فرمائیں۔ تا کہ آئندہ غلطی کا امکان کم ہو۔
جزاک اللہ خیر برادرم
مقطع میں تخلص کا استعمال لازمی نہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
غزل میں مطلع اور مقطع ہو تو حسن بڑھ جاتا ہے۔ مقطع کو تو میں غیر ضروری بھی سمجھتا ہوں کہ اکثر تخلص بھرتی الفاظ کی طرح گھسایا جاتا ہے۔ @ابن رضا، مقطع کے لئے تخلص ضروری ہے، بغیر تخلص کے مقطع نہیں محض آخری شعر کہا جائے گا۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
غزل میں مطلع اور مقطع ہو تو حسن بڑھ جاتا ہے۔ مقطع کو تو میں غیر ضروری بھی سمجھتا ہوں کہ اکثر تخلص بھرتی الفاظ کی طرح گھسایا جاتا ہے۔ @ابن رضا، مقطع کے لئے تخلص ضروری ہے، بغیر تخلص کے مقطع نہیں محض آخری شعر کہا جائے گا۔

استاد محترم بات سمجھ گیا۔ اب مطلع کے لازم ہونے کے بارے کیا کہتے ہیں اآپ؟
 
مطلع لازم ہے غزل کے لیے۔ ورنہ قطعہ ہو جائے گا۔

میرے خیال میں قطعہ تو شاید نہیں البتہ بے مطلع غزل کہا جاسکتا ہے۔ قطعہ کے لیے سارے اشعار کا باہمی طور پر ربط میں ہونا ضروری ہے۔ حالانکہ غزل کا ہر شعر جدا مطلب کا حامل بھی ہوسکتا ہے۔
 
غزل کے قوافی کے حوالے سے شاعر کو ایک مشورہ ہے کہ آسان قوافی چنیں تاکہ زمین نبھانا آسان ہو۔ اس غزل میں کئی قوافی بن رہے ہیں۔ جیسے قیدی ایک قافیہ ہے۔ حد بندی بالمقابل درد مندی وغیرہ وردی بالمقابل سردی قافیہ آسکتا ہے۔
تاہم فریادی، آبادی بربادی، شادی، میعادی، عادی وغیرہ یہ کشادہ زمین ہے۔
پسِ نوشت: غزل میں جس طرح قوافی لائے گئے ہیں میں انہیں بھی درست سمجھتا ہوں۔ تاہم بڑے استاد جی اسے غلط مانتے ہیں اور مستحسن بھی یہی ہے کہ پرہیز کیا جائے۔ اگر چہ اساتذہ کے کلام میں اس کی مثالیں با آسانی دستیاب ہیں۔ مثلاً جلا، سُلا، مِلا، گلا، رُلا کو قافیہ کرتے ہیں۔
 
Top