غزل برائے اصلاح

صفی حیدر

محفلین
میں دل کی خلش کو مٹا دوں
میں تجھ کو بھی کیا اب بھلا دوں
خطوطِ وفا جو لکھے تھے
اے جاں کیا وہ سارے جلا دوں
جو مجھ پر گزرتی رہی ہے
اجازت ہو تو سب بتا دوں
چھپے درد ہیں خامشی میں
سنا کر تجھے بھی رلا دوں
میرے غم میں حدت ہے ایسی
کہ اس آگ سے سب جلا دوں
پریشان کر دوں تجھے بھی
کہو تو وہ منظر دکھا دوں
سمندر ہو تم میں ہوں دریا
صفی تجھ میں خود کو گرا دوں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میں دل کی خلش کو مٹا دوں
میں تجھ کو بھی کیا اب بھلا دوں
خطوطِ وفا جو لکھے تھے
اے جاں کیا وہ سارے جلا دوں
جو مجھ پر گزرتی رہی ہے
اجازت ہو تو سب بتا دوں
چھپے درد ہیں خامشی میں
سنا کر تجھے بھی رلا دوں
میرے غم میں حدت ہے ایسی
کہ اس آگ سے سب جلا دوں
پریشان کر دوں تجھے بھی
کہو تو وہ منظر دکھا دوں
سمندر ہو تم میں ہوں دریا
صفی تجھ میں خود کو گرا دوں
اچھی غزل ہے صفی صاحب ۔ آخری دو شعروں میں کچھ شتر گربگی سی ہے۔
پریشان کر دوں تجھے بھی
کہو تو وہ منظر دکھا دوں
یہاں کہو تو کی جگہ کہے تو ہو نا چاہیئے۔
سمندر ہو تم میں ہوں دریا
صفی تجھ میں خود کو گرا دوں
یہاں بھی ہو تم کی جگہ ہے تو ہونا چاہیئے۔
خطوطِ وفا جو لکھے تھے
اے جاں کیا وہ سارے جلا دوں
اے جاں کا اے شعر میں تخاطب کے لیے اہم ہے۔ اس لیے اس میں ے کا دبنا بھی مناسب نہیں اسے مری جاں وغیرہ کر کے باندھنا چاہیئے۔
 

صفی حیدر

محفلین
بہت شکریہ آپ نے اپنی قیمتی رائے سے نوازا۔ آپ کی تجاویز کی روشنی میں تبدیلیاں کرنے کی کوشش کروں گا۔ امید ہے آئندہ بھی آپ اپنی پسندیدگی و اصلاح سے نوازتے رہیں گے۔ :)
 
Top