صفی حیدر
محفلین
میں دل کی خلش کو مٹا دوں
میں تجھ کو بھی کیا اب بھلا دوں
خطوطِ وفا جو لکھے تھے
اے جاں کیا وہ سارے جلا دوں
جو مجھ پر گزرتی رہی ہے
اجازت ہو تو سب بتا دوں
چھپے درد ہیں خامشی میں
سنا کر تجھے بھی رلا دوں
میرے غم میں حدت ہے ایسی
کہ اس آگ سے سب جلا دوں
پریشان کر دوں تجھے بھی
کہو تو وہ منظر دکھا دوں
سمندر ہو تم میں ہوں دریا
صفی تجھ میں خود کو گرا دوں
میں تجھ کو بھی کیا اب بھلا دوں
خطوطِ وفا جو لکھے تھے
اے جاں کیا وہ سارے جلا دوں
جو مجھ پر گزرتی رہی ہے
اجازت ہو تو سب بتا دوں
چھپے درد ہیں خامشی میں
سنا کر تجھے بھی رلا دوں
میرے غم میں حدت ہے ایسی
کہ اس آگ سے سب جلا دوں
پریشان کر دوں تجھے بھی
کہو تو وہ منظر دکھا دوں
سمندر ہو تم میں ہوں دریا
صفی تجھ میں خود کو گرا دوں