صفی حیدر
محفلین
تیرا سامان مجھ میں بکھرا ہے
دل یہ بے جان مجھ میں بکھرا ہے
سوچتا ہوں سمیٹ لوں میں اسے
میرا ارمان مجھ میں بکھرا ہے
کس کی آمد کا پیش خیمہ ہے یہ
ایک طوفان مجھ میں بکھرا ہے
سب امیدیں مری ختم ہو چکیں
اور یہ نقصان مجھ میں بکھرا ہے
ایک ٹوٹا قلم ہے پاس مرے
میرا دیوان مجھ میں بکھرا ہے
ہے مکمل کہانی میری مگر
اس کا عنوان مجھ میں بکھرا ہے
حسنِ ترتیب کیسے آئے صفی
ایک انسان مجھ میں بکھرا ہے
دل یہ بے جان مجھ میں بکھرا ہے
سوچتا ہوں سمیٹ لوں میں اسے
میرا ارمان مجھ میں بکھرا ہے
کس کی آمد کا پیش خیمہ ہے یہ
ایک طوفان مجھ میں بکھرا ہے
سب امیدیں مری ختم ہو چکیں
اور یہ نقصان مجھ میں بکھرا ہے
ایک ٹوٹا قلم ہے پاس مرے
میرا دیوان مجھ میں بکھرا ہے
ہے مکمل کہانی میری مگر
اس کا عنوان مجھ میں بکھرا ہے
حسنِ ترتیب کیسے آئے صفی
ایک انسان مجھ میں بکھرا ہے