محمد تابش صدیقی
منتظم
تمہید:
محفل کے احباب کی "پر زور" فرمائش پر ایک عدد گستاخی حاضر ہے.
اساتذہ اور دیگر شعراء سے گزارش ہے کہ بے رحمی سے تجزیہ فرمائیں. تاکہ اردو شاعری پر بوجھ کے بجائے اچھا قاری و سامع بننے پر توجہ دوں.
محفل کے احباب کی "پر زور" فرمائش پر ایک عدد گستاخی حاضر ہے.
اساتذہ اور دیگر شعراء سے گزارش ہے کہ بے رحمی سے تجزیہ فرمائیں. تاکہ اردو شاعری پر بوجھ کے بجائے اچھا قاری و سامع بننے پر توجہ دوں.
مثلِ روشن سحر نکھرتے ہو
عشق کی راہ میں جو مرتے ہو
یاد اس کی ہی چین دیتی ہے
جب کبھی ٹوٹ کر بکھرتے ہو
دھوکہ دے کر حبیب کو خوش ہو
تم بھروسے کا خون کرتے ہو
جھوٹ ہے مصلحت کے پردے میں
سچ سے رخ پھیر کر گزرتے ہو
ان کی طاعت عمل میں ہے ہی نہیں
دم محبت کا یونہی بھرتے ہو
ہے یہ احساں اسی کا اے تابشؔ
کہ بگڑ کر جو تم سنورتے ہو
عشق کی راہ میں جو مرتے ہو
یاد اس کی ہی چین دیتی ہے
جب کبھی ٹوٹ کر بکھرتے ہو
دھوکہ دے کر حبیب کو خوش ہو
تم بھروسے کا خون کرتے ہو
جھوٹ ہے مصلحت کے پردے میں
سچ سے رخ پھیر کر گزرتے ہو
ان کی طاعت عمل میں ہے ہی نہیں
دم محبت کا یونہی بھرتے ہو
ہے یہ احساں اسی کا اے تابشؔ
کہ بگڑ کر جو تم سنورتے ہو