محمد فائق

محفلین
وہ اپنی ہتک آپ بلانے کو چلے تھے
جو نام و نشاں میرا مٹانے کو چلے تھے

سچ کہیے تو آنکھوں میں بھی آنسو نہ بچے تھے
اور تشنگی صحرا کی بجھانے کو چلے

افسوس کہ وہ خود بھی تھے گمراہِ زمانہ
جو راستہ بتلانے زمانے کو چلے تھے

جن سے نہ ہوئی گل کی گلستاں میں حفاظت
گلزار وہ صحرا میں کھلانے کو چلے تھے

کچھ اور نظر آنے لگا زخم جگر کا
کیا کہتے کہ ہم زخم چھپانے کو چلے تھے

پتھر بھی جو روتے تو تعجب نہیں ہوتا
ہم حالِ شکستہ جو سنانے کو چلے تھے

اپنوں سے تو رکھا نہ تعلق کوئی فائق
رشتہ تو زمانے سے نبھانے کو چلے تھے
 

الف عین

لائبریرین
واہ، خوب غزل ہے۔ خاص کر یہ پسند آیا
کچھ اور نظر آنے لگا زخم جگر کا
کیا کہتے کہ ہم زخم چھپانے کو چلے تھے
اصلاح کی رو سے دو باتیں۔

سچ کہیے تو آنکھوں میں بھی آنسو نہ بچے تھے
اور تشنگی صحرا کی بجھانے کو چلے تھے
یہ دوسرا ہی شعر ہے، اور آخر میں تھے کی وجہ سے حسن مطلع کا احساس ہوتا ہے جب کہ یہ زمین ہی مختلف ہے۔ اس لئے الفاظ بدل کر دیکھیں۔ مثلاً
سچ پوچھو تو آنکھوں میں بھی اشکوں کا تھا فقدان

جن سے نہ ہوئی گل کی گلستاں میں حفاظت
گلزار وہ صحرا میں کھلانے کو چلے تھے
کیا ایک واحد گل کی حفاظت؟ یوں ہو سکتا ہے
جن سے نہ ہوئی پھولوں کی گلشن میں حفاظت
 

محمد فائق

محفلین
واہ، خوب غزل ہے۔ خاص کر یہ پسند آیا
کچھ اور نظر آنے لگا زخم جگر کا
کیا کہتے کہ ہم زخم چھپانے کو چلے تھے
اصلاح کی رو سے دو باتیں۔

سچ کہیے تو آنکھوں میں بھی آنسو نہ بچے تھے
اور تشنگی صحرا کی بجھانے کو چلے تھے
یہ دوسرا ہی شعر ہے، اور آخر میں تھے کی وجہ سے حسن مطلع کا احساس ہوتا ہے جب کہ یہ زمین ہی مختلف ہے۔ اس لئے الفاظ بدل کر دیکھیں۔ مثلاً
سچ پوچھو تو آنکھوں میں بھی اشکوں کا تھا فقدان

جن سے نہ ہوئی گل کی گلستاں میں حفاظت
گلزار وہ صحرا میں کھلانے کو چلے تھے
کیا ایک واحد گل کی حفاظت؟ یوں ہو سکتا ہے
جن سے نہ ہوئی پھولوں کی گلشن میں حفاظت
حوصلہ افزائی و رہنمائی کے لیے آپ شکرگزار ہوں سر
 
Top