محمد فائق
محفلین
منزلِ عشق کا رستہ ہے کہ صحرا کا کوئی
آبلہ پا ہے یہاں کوئی تو تشنہ کوئی
ناخدا تھا نہ کوئی نا ہی مسیحا کوئی
کیسے ملتا مری کشتی کو کنارہ کوئی
اب بھی گر تو نہیں آیا تو مجھے ڈر ہے
کہیں
داستاں کو تری کہے دے نہ فسانہ کوئی
آبھی جا اے مرے مہتاب گھٹا سے باہر
چاہنے والوں سے کرتا ہے کیا پردہ کوئی
سببِ درد وہ ہی درد کا درماں بھی وہی
وہ مسیحا تھا یا رہزن تھا نہ سمجھا کوئی
زخم ہے رنج ہے تکلیف ہے تنہائی ہے
مگر افسوس نہیں ان کا مداوا کوئی
چاند کیوں شرم سے سر اپنا جھکائے ہوئے ہے
رشکِ انجم تو سرِ بزم نہیں آیا کوئی
ہم نوا ٹھیک ہوا تو جو منافق نکلا
ورنہ نیزے پہ ترا سر بھی چڑھاتا کوئی
شاعری درد بھری تجھ سے بھی ہوتی فائق
دل کو گر توڑنے والا تجھے ملتا کوئی
آبلہ پا ہے یہاں کوئی تو تشنہ کوئی
ناخدا تھا نہ کوئی نا ہی مسیحا کوئی
کیسے ملتا مری کشتی کو کنارہ کوئی
اب بھی گر تو نہیں آیا تو مجھے ڈر ہے
کہیں
داستاں کو تری کہے دے نہ فسانہ کوئی
آبھی جا اے مرے مہتاب گھٹا سے باہر
چاہنے والوں سے کرتا ہے کیا پردہ کوئی
سببِ درد وہ ہی درد کا درماں بھی وہی
وہ مسیحا تھا یا رہزن تھا نہ سمجھا کوئی
زخم ہے رنج ہے تکلیف ہے تنہائی ہے
مگر افسوس نہیں ان کا مداوا کوئی
چاند کیوں شرم سے سر اپنا جھکائے ہوئے ہے
رشکِ انجم تو سرِ بزم نہیں آیا کوئی
ہم نوا ٹھیک ہوا تو جو منافق نکلا
ورنہ نیزے پہ ترا سر بھی چڑھاتا کوئی
شاعری درد بھری تجھ سے بھی ہوتی فائق
دل کو گر توڑنے والا تجھے ملتا کوئی