حسیب بسمل
محفلین
یہاں جو کیئے ہیں ستم تُو نے نہیں وہ کم نہیں
ستم ظریف دل میں تیرے بھی کہیں پہ رحم نہیں
رقم جو کر رہاں ہوں میں غزل ہے نظم تو نہیں
یہ دل مرا ہے زندہ یارو دلِ عدم نہیں
کرے گا عدل اب مرا خدا ہی مَیں کیا کروں گا
تُو نے جو توڑ پھینکا یار دل وہ منتقم نہیں
تُو کھا نہ قسم اب تو ہاں گلی رقیب کی ہے یہ
وفا شکن مجھے تو تجھ پہ اب ذرا بھرم نہیں
گیا تھا مے کدے میں اسکا جامِ دید پینے کو
یہ کیا ستم ہے مے کدے میں میرا وہ صنم نہیں
ہُوا عطا کہاں سے، تجھ کو ذوقِ شاعری حسیؔب
نسب میں تیرے تو، کوئی بھی صاحب ِ قلم نہیں
حسیؔب مغل ۔۔۔ بسمؔل
ستم ظریف دل میں تیرے بھی کہیں پہ رحم نہیں
رقم جو کر رہاں ہوں میں غزل ہے نظم تو نہیں
یہ دل مرا ہے زندہ یارو دلِ عدم نہیں
کرے گا عدل اب مرا خدا ہی مَیں کیا کروں گا
تُو نے جو توڑ پھینکا یار دل وہ منتقم نہیں
تُو کھا نہ قسم اب تو ہاں گلی رقیب کی ہے یہ
وفا شکن مجھے تو تجھ پہ اب ذرا بھرم نہیں
گیا تھا مے کدے میں اسکا جامِ دید پینے کو
یہ کیا ستم ہے مے کدے میں میرا وہ صنم نہیں
ہُوا عطا کہاں سے، تجھ کو ذوقِ شاعری حسیؔب
نسب میں تیرے تو، کوئی بھی صاحب ِ قلم نہیں
حسیؔب مغل ۔۔۔ بسمؔل