محمد فائق
محفلین
سایہء غربت مرے ہمراہ جب رہنے لگا
شہر میں خود اپنے ہی میں اجنبی لگنے لگا
گر چکا اس دور میں معیارِ انسانی بہت
آج کے انساں کو انسانوں سے ڈر لگنے لگا
خونِ آدم کس قدر ارزاں ہوا ہے کیا کہیں
مثل پانی کے لہو انسان کا بہنے لگا
ہے رہِ ذلت پہ اور کرتا ہے عزت کی دعا
کیا سنا ہے گل سرِ صحرا کوئی کھلنے لگا
گمرہی ہاتھ آئی تیرے مجھ کو کچھ حیرت نہیں
راہبر کو چھوڑ کر کیوں راستہ چلنے لگا؟
حق بیانی کی تو سب شدت پسند کہنے لگے
مصلحت برتی بیاں میں ہر کوئی سننے لگا
حق بیانی کا نتیجہ جانتا ہوں اس لیے
سر تصور میں سرِ نیزہ مرا رہنے لگا
شک نہیں کوئی منافق لوگ ہیں مسند نشیں
تاج سچ کا دیکھیے جھوٹوں کے سر چڑھنے لگا
تیری کیا اوقات فائق کیوں کریں تجھ پر یقیں
صاحبِ دستار زر کی چاہ میں بکنے لگا
شہر میں خود اپنے ہی میں اجنبی لگنے لگا
گر چکا اس دور میں معیارِ انسانی بہت
آج کے انساں کو انسانوں سے ڈر لگنے لگا
خونِ آدم کس قدر ارزاں ہوا ہے کیا کہیں
مثل پانی کے لہو انسان کا بہنے لگا
ہے رہِ ذلت پہ اور کرتا ہے عزت کی دعا
کیا سنا ہے گل سرِ صحرا کوئی کھلنے لگا
گمرہی ہاتھ آئی تیرے مجھ کو کچھ حیرت نہیں
راہبر کو چھوڑ کر کیوں راستہ چلنے لگا؟
حق بیانی کی تو سب شدت پسند کہنے لگے
مصلحت برتی بیاں میں ہر کوئی سننے لگا
حق بیانی کا نتیجہ جانتا ہوں اس لیے
سر تصور میں سرِ نیزہ مرا رہنے لگا
شک نہیں کوئی منافق لوگ ہیں مسند نشیں
تاج سچ کا دیکھیے جھوٹوں کے سر چڑھنے لگا
تیری کیا اوقات فائق کیوں کریں تجھ پر یقیں
صاحبِ دستار زر کی چاہ میں بکنے لگا
مدیر کی آخری تدوین: