دل کو مشقِ ستم جو بنایا ہے اب
درد بن کر کوئی اس میں آیا ہے اب
÷÷کچھ دو لختی محسوس ہوتی ہے، مگر مطلع میں روا کہی جا سکتی ہے۔
دو لختی سے بچانے کے لیے یہ مناسب ہے؟
دل کو مشقِ ستم جو بنایا ہے اب
لطف اس میں بہت خود کو آیا ہے اب
عشق شاکی نہیں حسن سے میری جاں
تو نے چہرہ ہمیں یہ دکھایا ہے اب
÷÷تھرڈ پرسن میں ہی رہنے دو پورا شعر، ’میری جاں‘ کو بھی بدل دو۔
عشق شاکی نہیں حسن سے مہرباں
اس نے چہرہ حسیں یہ دکھایا ہے اب
مانا استاد تجھ کو بھِی الفاظ کا
تیرا ایسے ہنر کھل کے آیا ہے اب
÷÷اور کس کو الفاظ کا استاد مانا ہے تم نے؟ جیسا کہ پہلے مصرع کے بیانیہ سے پتہ چلتا ہے۔
مانا استاد ہے دل بھی الفاظ کا
درد اس کا سخن بن کے آیا ہے اب
جس کو پلکوں پہ ہم نے بٹھایا کبھی
اس نے ہم کو نظر سے گرایا ہے اب
÷÷’بٹھایا تھا‘ لا سکو تو بہتر ہو جائے مصرع
یہ مشکل ہو رہا ہے۔ پہلا مصرع اگر یوں ہو تو مناسب ہے؟
جس کو پلکوں پہ تھا ہاں بٹھایا کبھی
جز ترے زندگی یہ گزاریں گیں ہم
اک تصور عجب دل میں آیا ہے اب
÷÷سپاٹ ہو گیا ہے شعر، ہاں یوں ہو تو ’زندگی گزار کر دیکھیں گے‘ تو بہتر ہو÷
مضمون کے حساب سے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی اس لیے تبدیل کر دیا ہے
جز ترے زندگی کا تصور نہیں
یہ تصور ہی دل میں سمایا ہے اب
ہم نے سمجھا تھا جس کو کبھی بے زباں
حشر اس نے بھی سر پر اٹھایا ہے اب
÷÷درست، سوال اٹھتا ہے کہ کسے؟
تبدیلی کے بعد دو الگ شعر سمجھ میں آرہے ہیں، آپ بتائیے اس میں سے کوئی مناسب ہے
ہم تو سمجھے تھے غم کو ترے بے زباں
حشر اس نے بھی سر پر اٹھایا ہے اب
یا
ہم تو سمجھے تھے غم کو ترے بے نوا
غدر اس نے بھی دل میں مچایا ہے اب
ہاں بھکاری نہیں تیرا عاشق تھا وہ
تو نے جس کو گلی سے بھگایا ہے اب
÷÷بھگایا اچھا نہیں لگتا، ’در سے ہٹایا‘ لگا کر دیکھو۔
ہاں گداگر نہیں تیرا عاشق تھا وہ
تونے در سے جسے یوں ہٹایا ہے اب
شوق رسوائیوں کا نہیں ہے ہمیں
مشکلوں سے بڑی سر اٹھایا ہے اب
÷÷بڑی یا چھوٹی سر؟؟؟ مشکلوں سے بڑی‘ کے فقرے کا کچھ متبادل سوچو
شوق رسوائیوں کا نہیں ہے ہمیں
ہم نے مشکل سے سر کو اٹھایا ہے اب
اس میں 'سے سر' اگر مناسب نہیں تو
سر کو مشکل سے ہم نے اٹھایا ہے اب
حسن رسوا کریں یا خجل عشق ہو
ایک مشکل نے ہم کو ستایا ہے اب
÷÷سمجھ میں نہیں آیا۔
کہنا یہ تھا کہ اگر کچھ کہیں تو حسن رسوا ہوگا اور نہ کہنے میں عشق کو مشقت ہے اس مشکل نے ستا رکھا ہے۔ خیر اگر بیانیہ ٹھیک نہیں تو اس کو حذف کردیتاہوں۔
اس کو کلمہ پڑھا دے ابھی عشق کا
دیکھ کافر جو یہ ہاتھ آیا ہے اب
۔۔واہ، پہلے مصرعے کی داد تو واجب ہے ہی، لیکن شاید ردیف کی وجہ سے دوسرا مصرع فٹ نہیں ہو رہا۔
میری ناقص فہم کے مطابق آپ کا اشارہ
ابھی اور
اب کی طرف ہے، اگر پہلے مصرعے میں تھوڑی سے تبدیل کردوں تو یہ مناسب رہے گا؟
پاک کلمہ پڑھا دے اسے عشق کا
دیکھ کافر جو یہ ہاتھ آیا ہے اب
جان کہہ کر جو پھر سے پکارا ہمیں
کام اس کو بھی اک ہم سے آیا ہے اب
÷÷کام آیا کا دوسرا محاوہ ہوتا ہے۔ یہاں یہ محاورہ نہیں سمجھا جائے گا۔ یاں کا ’نکلا‘ کا محل ہے۔ فو قافیہ نہیں۔
جان کہہ کر جو پھر سے پکارا ہمیں
کچھ تو دل میں بھی ان کے سمایا ہے اب
دشتِ نفرت میں بھی ہو گئی روشنی
ہم نے شعلہ یہ دل کا جلایا ہے اب
÷÷یہ کی جگہ ’جو‘ استعمال کرنے سے بہتر ہو سکتا ہے دوسرا مصرع۔
جی بہتر ہے۔
خون ٹپکا ہے جو یہ رگِ سنگ سے
دردِ دل ہم نے اس کو سنایا ہے اب
÷÷خلاف واقعہ ہے یہ تو۔
جناب اس میں 'دل خون کے آنسو روتا ہے' کے محاورے کی طرف اشارہ ہے۔ سنگ سے مراد
دل ہے یعنی میرا درد دل سن کروہ پھتر دل بھی خون کے آنسو رو دیا۔ اگر نامناسب ہے تو پہلا مصرع یوں بن سکتا ہے؟
خون ٹپکا ہے جو آنسوؤں کی جگہ
حسن کو ناز تھا اپنی پرواز پر
آسماں سے زمیں پر وہ آیا ہے اب
÷÷÷یہ ہر جگہ حسن اور عشق استعمال نہ کیا کرو تو اچھا ہے۔ یہاں پہلے مصرع میں کسی کے لیے بھی کہا جا سکتا ہے۔
ناز تھا جس کو ۔۔ باندھ کر دیکھو
معذرت چاہتا ہوں، الفاظ کی کمی کی وجہ سے حسن اور عشق کی تکرار کردی۔ آئندہ ان دونوں سے احتیاط کروں گا۔
ناز تھا جس کو بھی اپنی پرواز پر
آسماں سے زمیں پر وہ آیا ہے اب
عمر بھر تھا صنم زہد کا جو بھرم
ایک لغزش پہ وہ کھل کے آیا ہے اب
۔۔یہ صنم تو صاف بھرتی کا ہے۔
صنم اور بھرم میں ذرا ترنم تھا اس لیے اس کو بھرتی کر لیا۔ آپ کا حکم سرآنکھوں پر، نکال دیا ہے اس کو۔
عمر بھر تھا ہمیں زہد کا جو بھرم
ایک لغزش پہ وہ کھل کے آیا ہے اب
مجموعی طور پر ردیف کی وجہ سے ہی غزل متاثر ہوئی ہے۔
جناب اگر آپ اس نالائق کے لیے وضاحت کر دیں گے تو آئندہ کے لیے آسانی ہو گی۔ آپ نے زمین اور ردیف کی طرف نشاندہی فرمائی ہے۔ مجھ کج فہم کے لیے ذرا وضاحت فرما دیں۔
ایک بات اور۔ ایک ہی قافیہ دو متصل اشعار میں مت لایا کرو۔ کچھ فاصلہ دے دو۔ یہاں آیا قافیہ دو اشعار میں ایک کے بعد ایک آ گیا ہے۔
جی غزل کی حتمی شکل میں درست کردوں گا اور آئندہ کے لیے انشااللہ محتاط رہوں گا۔