نوید صادق
محفلین
غزل
تصویر کا جو دوسرا رخ تھا، نہیں دیکھا
ہم نے کبھی امکان کا رستہ نہیں دیکھا
جس حال میں،جس جا بھی رہے،خود سے رہے دور
اک شخص بھی اپنی طرف آتا نہیں دیکھا
اک غم کہ ہمیں راس بہت تھا ،سو نہیں ہے
مدت سے نمِ چشم کو رسوا نہیں دیکھا
اے نقش گرِ خواب! ذرا دھیان ادھر بھی
ہم نے کبھی تعبیر کا چہرہ نہیں دیکھا
قرطاسِ دلِ زار پہ یہ نقشِ شکستہ!
وہ کون تھا جس نے مجھے دیکھا، نہیں دیکھا
یہ روگ مرے فکر کی تجسیم کرے گا
سورج نے مرے شہر کا نقشہ نہیں دیکھا
کچھ تم بھی کہو، میری تو گویائی چلی بس!
کیا دیکھ لیا تم نے یہاں،کیا نہیں دیکھا
چپ چاپ نوید اپنی حدوں میں پلٹ آؤ
ہم نے بھی کئی دن سے تماشا نہیں دیکھا
(نوید صادق)
تصویر کا جو دوسرا رخ تھا، نہیں دیکھا
ہم نے کبھی امکان کا رستہ نہیں دیکھا
جس حال میں،جس جا بھی رہے،خود سے رہے دور
اک شخص بھی اپنی طرف آتا نہیں دیکھا
اک غم کہ ہمیں راس بہت تھا ،سو نہیں ہے
مدت سے نمِ چشم کو رسوا نہیں دیکھا
اے نقش گرِ خواب! ذرا دھیان ادھر بھی
ہم نے کبھی تعبیر کا چہرہ نہیں دیکھا
قرطاسِ دلِ زار پہ یہ نقشِ شکستہ!
وہ کون تھا جس نے مجھے دیکھا، نہیں دیکھا
یہ روگ مرے فکر کی تجسیم کرے گا
سورج نے مرے شہر کا نقشہ نہیں دیکھا
کچھ تم بھی کہو، میری تو گویائی چلی بس!
کیا دیکھ لیا تم نے یہاں،کیا نہیں دیکھا
چپ چاپ نوید اپنی حدوں میں پلٹ آؤ
ہم نے بھی کئی دن سے تماشا نہیں دیکھا
(نوید صادق)