مانی عباسی
محفلین
نہ تارِ اشک کو گر ہم لہو کرتے
بھلا کیسے ادا رسمِ وضو کرتے
کبھی جو بیٹھ کر تم گفتگو کرتے
تمامِ ہجر کی ہم جستجو کرتے
محبت کچھ نہیں ہوتی اگر تو کیوں
سرِ بازار نیلام آبرو کرتے
سنا ہے مرکزِ گیسوئے جاناں کی
مریدانِ قمر ہیں آرزو کرتے
حدودِ کفر سے آگے نکل جاتے
اگر تم کو بیان اپنا عدو کرتے
روایت توڑ کر سب بزمِ مے والے
غم اپنے کب تلک نذرِ سبو کرتے
ہٹا آنچل، دکھا کاجل، ہوئے پاگل
عطا جز دلبری کیا خوبرو کرتے
فقط تسکینِ دل کے واسطے مانی
نمک سے زخمِ دل ہیں اب رفو کرتے...