مانی عباسی
محفلین
بہاریں یاد کرتے ہیں وطن کا نام لیتے ہیں
جنوں کے دشت والے اب چمن کا نام لیتے ہیں
سکھائے کون ان کو بزم کے آداب جو اکثر
سجی محفل میں ختمِ انجمن کا نام لیتے ہیں
اکیلے گھومے تنہائی تو دل میں درد ہوتا ہے
یہی تو ہے جو آئے تو سخن کا نام لیتے ہیں
پتنگوں نے سکھا دی ہے وفا ہم عاشقوں کو بھی
ہم اب ذکرِ اگن سن کے لگن کا نام لیتے ہیں
بھروسہ زندگی کا کچھ محبت میں نہیں ہوتا
ہو آنکھوں سے تصادم تو کفن کا نام لیتے ہیں
مہکتے پھول کی یارو نزاکت دیکھ کر اکثر
دبا کر لب ہم اک شیریں بدن کا نام لیتے ہیں
ہے ملکِ رنگ پے اِنکی حکمرانی مگر مانی
گل و تتلی بھی اُنکے پیرہن کا نام لیتے ہیں.....