مانی عباسی
محفلین
تمہیں کچھ علم ہے کس حال میں ہے
غزالِ دل وفا کے جال میں ہے
مرے ماضی میں میرے حال میں ہے
ملا بس درد ہی ہر سال میں ہے
ٹھکانہ جز جہنم کے ہو گا کیا
محبت نامۂ اعمال میں ہے
نوائے حسن میں موسیقیت ہے
نگہ سر میں اشارہ تال میں ہے
چلو مت یوں ادا سے جی اٹھے گا
پہن کے جو کفن پاتال میں ہے
جھلک کشمیر کے سیبوں کی مانی
نظر آتی مجھے اک گال میں ہے