غزل برائے تنقید -----

مانی عباسی

محفلین
یہ بازی ہار کے یارو مجھے زندہ نہیں رہنا
مرے اپنو مرے پیارو مجھے زندہ نہیں رہنا

زمیں زادہ ہوں خواہش چاند کی ہے چھو نہیں سکتا
رقابت ختم اے تارو مجھے زندہ نہیں رہنا

بہت سے لوگ کم ہمت کہیں گے جانتا ہوں میں
شجاعت کے ادا کارو مجھے زندہ نہیں رہنا

چھلے پاؤں کٹھن رستے مگر منزل نہ مل پائی
بقا کے آب کی دھارو مجھے زندہ نہیں رہنا

کہا کچھ بھی نہیں جائے گا میرے قاتلو تمکو
بلا خوف و جھجک مارو مجھے زندہ نہیں رہنا

مری غزلوں کو پڑھنا میں ملوں گا اب وہیں تمکو
خدا حافظ پرستارو مجھے زندہ نہیں رہنا ۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
بلا تمہید ۔۔ ایک دو باتیں جو بہت لازمی ہیں۔
بلا خوف و جھجک ۔۔ یہ ترکیب درست نہیں ۔۔ بلا خوف و خطر ۔۔ اس کا شاید آپ نے سوچا کہ محل نہیں ہے، جھجک اہم عنصر رہا ہو گا۔ پھر بھائی ترکیب کوئی نئی بنائیے جو قواعد کے مطابق بھی درست ہو۔
بغیر ضرورت اور جواز کے الفاظ کوجوڑ کر نہ لکھا کیجئے: تم کو، مجھ کو، ان کو، ان کا، وغیرہ۔ یہ اصولی بات تو ہے ہی، فی زمانہ کمپیوٹر نے اس کی اہمیت بڑھا دی ہے۔
پختگی تو آتے آتے آئے گی، رفعت کی طرف پرواز تو کیجئے۔ شعر میں دونوں چیزیں اہم ہیں: رفعت بھی اور گہرائی بھی۔ اس مرحلے پر اپنے قارئین کو ’’پرستارو‘‘ کہہ کر پکارنا نہیں جچے گا، ممکن ہے ایک مرحلہ وہ بھی آئے کہ آپ کے قارئین خود کو پرستار کہنے لگیں، تاہم ابھی نہیں!
ردیف تعین کرتی ہے غزل کی مجموعی فضا کا، اور قوافی اس میں ندرت لاتے ہیں۔ اصولی طور پر ان دونوں کا انتخاب خالص آپ کا اختیار ہے، تاہم ان میں کسی قدر وسعت اور کشادگی ہو تو آپ کو زیادہ موضوعات پر شعر لانے کا موقع مل سکتا ہے۔ آس اور یاس کا مسئلہ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں، آپ اپنے اندر کی بات کر رہے ہیں، تو اندر کو کچھ ہو گا وہی تو سامنے آئے گا، اس پر کوئی اعتراض کم از کم میں نہیں کرتا۔
خوش رہئے۔
 

مانی عباسی

محفلین
بلا تمہید ۔۔ ایک دو باتیں جو بہت لازمی ہیں۔
بلا خوف و جھجک ۔۔ یہ ترکیب درست نہیں ۔۔ بلا خوف و خطر ۔۔ اس کا شاید آپ نے سوچا کہ محل نہیں ہے، جھجک اہم عنصر رہا ہو گا۔ پھر بھائی ترکیب کوئی نئی بنائیے جو قواعد کے مطابق بھی درست ہو۔
بغیر ضرورت اور جواز کے الفاظ کوجوڑ کر نہ لکھا کیجئے: تم کو، مجھ کو، ان کو، ان کا، وغیرہ۔ یہ اصولی بات تو ہے ہی، فی زمانہ کمپیوٹر نے اس کی اہمیت بڑھا دی ہے۔
پختگی تو آتے آتے آئے گی، رفعت کی طرف پرواز تو کیجئے۔ شعر میں دونوں چیزیں اہم ہیں: رفعت بھی اور گہرائی بھی۔ اس مرحلے پر اپنے قارئین کو ’’پرستارو‘‘ کہہ کر پکارنا نہیں جچے گا، ممکن ہے ایک مرحلہ وہ بھی آئے کہ آپ کے قارئین خود کو پرستار کہنے لگیں، تاہم ابھی نہیں!
ردیف تعین کرتی ہے غزل کی مجموعی فضا کا، اور قوافی اس میں ندرت لاتے ہیں۔ اصولی طور پر ان دونوں کا انتخاب خالص آپ کا اختیار ہے، تاہم ان میں کسی قدر وسعت اور کشادگی ہو تو آپ کو زیادہ موضوعات پر شعر لانے کا موقع مل سکتا ہے۔ آس اور یاس کا مسئلہ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں، آپ اپنے اندر کی بات کر رہے ہیں، تو اندر کو کچھ ہو گا وہی تو سامنے آئے گا، اس پر کوئی اعتراض کم از کم میں نہیں کرتا۔
خوش رہئے۔
شکریہ سر جی اتنی مفصل رائے دینے کا.۔۔۔۔۔۔

سر خوف و جھجک ترکیب درست کیوں نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔اکثر یہ جملہ سنتا ہوں میں تو اہلِ ادب کے مںہ سے
ہم بلا خوف و جھجک اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں

آپکی باقی باتوں پر عمل کرنے کی کروں گا
 
کچھ میری طرف سے! ۔۔۔
آسی صاحب یہاں موجود ہیں سبحان اللہ! آسی صاحب نے اچھی تنقید کی ہے، میں اس میں تھوڑا اضافہ کرنا چاہوں گا،
یہ بازی ہار کے یارو مجھے زندہ نہیں رہنا
مرے اپنو مرے پیارو مجھے زندہ نہیں رہنا
غزل کا مطلع خیال کے حساب سےہمیشہ پختہ ہونا چاہیے، اس شعر میں کسی ایسی بات کا اظہار ضروری ہے، جس سے مطلب واضح ہو ، آپ نے جو بازی ہارنے کا ذکر کیا ہے اس کا پتہ نہیں چل رہا ،
زمیں زادہ ہوں خواہش چاند کی ہے چھو نہیں سکتا
رقابت ختم اے تارو مجھے زندہ نہیں رہنا
اس شعر میں ' ہوں' کو خواہش کے ساتھ جوڑا ہے یہ بھلا نہیں لگ رہا ، اکثر شعرا ان الفاظ کو جن کے ساتھ ' نون غنہ' یا 'ھ' ہو اس طرح استعمال کرتے ہیں جو کہ بہتر نہیں کیونکہ اس سے شعر کا ترنم ٹوٹ جاتا ہے، دوسرا اس میں بیان کیے گئے مضمون کو دیکھا جائے تو پہلا مصرعہ دوسرے کے مخالف ہے، یہ اس طرح ہے جیسے آپ کہہ رہے ہوں ' انگور کٹے ہیں'
چھلے پاؤں کٹھن رستے مگر منزل نہ مل پائی
بقا کے آب کی دھارو مجھے زندہ نہیں رہنا
اس شعر میں دوسرا مصرعہ رواں نہیں ۔۔۔۔
کہا کچھ بھی نہیں جائے گا میرے قاتلو تمکو
بلا خوف و جھجک مارو مجھے زندہ نہیں رہنا
دوسرے مصرعے میں بلا خوف وجھجک کا استعمال اس لیے درست نہیں کیونکہ اسے آپ 'مارو' کے ساتھ استعمال کررہے ہیں، جب کہ یہ ہاتھ سے تکلیف دینے یا مارنے کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا، ہاں یہ اپنی رائے کے اظہار کے لیے، کسی سے ملنے کے لیے، اپنی بات کہنے کے لیے استعمال ہوسکتا ہے، مثلاً کوئی بھی شخص ان سے بلا خوف و جھجک مل سکتا ہے، لوگوں نے بلا خوف و جھجک سوال پوچھے، بلا خوف و جھجک حق کا اظہار کرنا چاہیے، اچھی کوشش ہے، باقی خیالات میں پختگی اور عمدگی وقت کے ساتھ ساتھ آئے گی، سلامت رہیں ۔
 
شکریہ سر جی اتنی مفصل رائے دینے کا.۔۔۔ ۔۔۔

سر خوف و جھجک ترکیب درست کیوں نہیں ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔اکثر یہ جملہ سنتا ہوں میں تو اہلِ ادب کے مںہ سے
ہم بلا خوف و جھجک اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں

آپکی باقی باتوں پر عمل کرنے کی کروں گا

عمل کرنا، نہ کرنا، باقی یا کلی یہ آپ پر ہے کہ اختیار آپ کا ہے۔ میرا فرض صرف نشاندہی کرنا ہے سو میں کر چکا۔ اور یہ اختیار بھی آپ کا ہے کہ آپ غلط ترکیب بنائیے یا صحیح۔

قاعدہ یہی ہے کہ:
زیر کے ساتھ ترکیب اضافی بنائیں یا توصیفی؛ یا واو کے ساتھ ترکیب عطفی بنائیں؛ اس میں فارسی اور عربی اصل کے اسماء و افعال باہم وارد ہو سکتے ہیں، ہندی، انگریزی وغیرہ اصل کے نہیں۔ ’’جھجک‘‘ ہندی الاصل ہے، ’’خوف‘‘ عربی الاصل ہے۔ سو مجھے تو یہ قابلَ قبول نہیں ہے۔ اگر کوئی چیز، بات، عمل غلط رائج ہو جائے تو اسے جواز نہیں بنایا جا سکتا۔
کچھ غلط تراکیب دیکھئے: دیوارِجھوٹ، کوچہ و گھر، بچہ و بوڑھا، ملاپ و سنگم، کھٹکاءِ دل، فسادِ آنکھ و کان، پتیءِ گلاب ، مردِ پھڈے باز۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
یہ بھی نوٹ کر لیجئے کہ اسمِ عَلَم کی صورت میں زبان کی پابندی اس اسم علم کی حد تک غیر مؤثر ہو جاتی ہے۔ زندہ دلانِ لاہور، اہلِ لندن، حسینہءِ میکسیکو، مثالِ رچرڈ ، داستانِ گوانٹاناموبے، موازنہء لاہور و ہائڈل برگ، اقبال و نطشے؛ شاعرِ سری لنکا، ’’سونامی‘‘ و ’’یولنڈا‘‘: وغیرہ درست تراکیب ہوں گی۔
تاہم جہاں شعری جمالیات متاثر ہو رہی ہوں، ان سے گریز ہی بہتر ہے۔

۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top