مانی عباسی
محفلین
ہو باعث کچھ بھی اس بے آبرو کا ذکر مت کیجے
بہ اندازِ شکایت بھی عدو کا ذکر مت کیجے
ہماری شاعری سن کر لگے وہ ڈانٹنے ہم کو
"یوں اپنے بِیچ کی اس گفتگو کا ذکر مت کیجے"
بنی ہے یار کی آنکھیں سفیرِ بادہ و ساغر
ہمارے آگے اب جام و سبو کا ذکر مت کیجے
ہوا ہے گر شبابِ گل فنا تو کیوں ہے حیرانی
کہا تھا ہم نے رکیے ان کے رو کا ذکر مت کیجے
نہیں ہے خاک بھی مانی تَیَمُّم کو مُیَسَّر جب
لہو رو دیں گے ہم شرطِ وضو کا ذکر مت کیجے