فیضان قیصر
محفلین
مجھے بدگمانی تھی اپنی وفا سے
تمھیں مانگ لیتا میں ورنہ خدا سے
کہاں میں کہاں پر محبت کی جھنجھٹ
تمھیں دے سکوں گا نہ جھوٹے دلاسے
مجھے وصل کی خوش گمانی ہی کب تھی
تمھیں کیوں شکایت ہے اپنی ادا سے
محبت کی ضو میں جو تاثیر ہوتی
مجھے چھین لیتی شبِ ابتلا سے
مجھے بے یقنی نے بے فیض رکھا
نتائج بدلتے ہیں ورنہ دعا سے
توقع بھلی کوئی فیضان کیوں ہو
کہ ناسور تم بھر رہے ہو دوا سے