غزل براہ اصلاح

سر الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: بھائی اصلاح کی درخواست ہے۔۔۔

افاعیل فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

وہ نکلتا کیوں نہیں ، شل ہو گیا
یا جو دل صحرا تھا دلدل ہو گیا

وقت پہلو میں ترے گزرا ہے یوں
آج بھی بیتا ہوا کل ہو گیا

لوٹ کر جانا ہوا مشکل مرا
جب اٹھایا پیر بوجھل ہو گیا

ڈھونڈتا ہے کس کو وہ اس شہر میں
کوئی تو نظروں سے اوجھل ہو گیا

آج ہولی خون کی کھیلی گئی
میرا بستا شہر مقتل ہو گیا

قید ہوں میں اپنے ہی اندر کہیں
جیسے در باہر سے مقفل ہو گیا

ہم ادھورے رہ گئے عمران تَو
غیر سے جڑ کر مکمل ہو گیا

شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
وہ نکلتا کیوں نہیں ، شل ہو گیا
یا جو دل صحرا تھا دلدل ہو گیا
... شل؟ یہ متحرک اعضاء کا بے حرکت ہو جانے کو کہا جاتا ہے۔ ہاتھ یا پیر۔ دل یا کسی شخص کے لیے کہنا مجھے تو غلط ہی محسوس ہوا۔ یا پھر درست ابلاغ نہیں ہو سکا مجھے

وقت پہلو میں ترے گزرا ہے یوں
آج بھی بیتا ہوا کل ہو گیا
... شاید یہی خیال اس طرح بہتر اور زیادہ واضح ہو سکتا ہے
آج تھا، بہتا ہوا کل ہو گیا

لوٹ کر جانا ہوا مشکل مرا
جب اٹھایا پیر بوجھل ہو گیا
... درست، شاید اولیُ کی یہ شکل بہتر ہو
لوٹ کر جانا مرا مشکل ہوا

ڈھونڈتا ہے کس کو وہ اس شہر میں
کوئی تو نظروں سے اوجھل ہو گیا
... درست

آج ہولی خون کی کھیلی گئی
میرا بستا شہر مقتل ہو گیا
.. ٹھیک، لیکن کیوں؟

قید ہوں میں اپنے ہی اندر کہیں
جیسے در باہر سے مقفل ہو گیا
.. دوسرا مصرع بحر سے خارج
در تو باہر سے مقفل ہو گیا
ہو سکتا ہے

ہم ادھورے رہ گئے عمران تَو
غیر سے جڑ کر مکمل ہو گیا
... درست، بس 'تو' اچھا نہیں لگ رہا ہے
 
وہ نکلتا کیوں نہیں ، شل ہو گیا
یا جو دل صحرا تھا دلدل ہو گیا
... شل؟ یہ متحرک اعضاء کا بے حرکت ہو جانے کو کہا جاتا ہے۔ ہاتھ یا پیر۔ دل یا کسی شخص کے لیے کہنا مجھے تو غلط ہی محسوس ہوا۔ یا پھر درست ابلاغ نہیں ہو سکا مجھے

وقت پہلو میں ترے گزرا ہے یوں
آج بھی بیتا ہوا کل ہو گیا
... شاید یہی خیال اس طرح بہتر اور زیادہ واضح ہو سکتا ہے
آج تھا، بہتا ہوا کل ہو گیا

لوٹ کر جانا ہوا مشکل مرا
جب اٹھایا پیر بوجھل ہو گیا
... درست، شاید اولیُ کی یہ شکل بہتر ہو
لوٹ کر جانا مرا مشکل ہوا

ڈھونڈتا ہے کس کو وہ اس شہر میں
کوئی تو نظروں سے اوجھل ہو گیا
... درست

آج ہولی خون کی کھیلی گئی
میرا بستا شہر مقتل ہو گیا
.. ٹھیک، لیکن کیوں؟

قید ہوں میں اپنے ہی اندر کہیں
جیسے در باہر سے مقفل ہو گیا
.. دوسرا مصرع بحر سے خارج
در تو باہر سے مقفل ہو گیا
ہو سکتا ہے

ہم ادھورے رہ گئے عمران تَو
غیر سے جڑ کر مکمل ہو گیا
... درست، بس 'تو' اچھا نہیں لگ رہا ہے
بہت شکریہ سر میں اسے مزید بہتر کروں گا۔۔۔
 
سر الف عین ، نظر ثانی کیجئے

کیسے نکلے ، وہ تو پاگل ہو گیا
دل جو صحرا تھا وہ دلدل ہو گیا

وقت پہلو میں ترے گزرا ہے یوں
آج تھا ، بیتا ہوا کل ہو گیا

لوٹ کر جانا مرا مشکل ہوا
جب اٹھایا پیر بوجھل ہو گیا

ڈھونڈتا ہے کس کو وہ اس شہر میں
کوئی تو نظروں سے اوجھل ہو گیا

قید ہوں میں اپنے ہی اندر کہیں
در تو باہر سے مقفل ہو گیا

ہم ادھورے رہ گئے ہیں ، وہ مگر
غیر سے جڑ کر مکمل ہو گیا

دل کی مسجد میں کوئی آتا نہیں
بند ہے ہر کھڑکی ، در شل ہو گیا

جو شجر میں نے لگایا تھا ، وہ آج
پھیل کر عمران جنگل ہو گیا

شکریہ
 
آپ نے جو اوزان لکھے وہ کسی بحر کے نہیں۔
افاعیل/مفاعیل، فاعلاتن کی کوئی فرع نہیں۔
تجویز ہے کہ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن کر لیں۔
بے وجہ مداخلت پر معافی چاہتا ہوں۔
 
آپ نے جو اوزان لکھے وہ کسی بحر کے نہیں۔
افاعیل/مفاعیل، فاعلاتن کی کوئی فرع نہیں۔
تجویز ہے کہ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن کر لیں۔
بے وجہ مداخلت پر معافی چاہتا ہوں۔
ذرا غور فرمائیے برادر ، افاعیل یا تفاعیل کا مطلب اوزان / رکن بحور ہوتا ہے۔۔۔ جیسے اس غزل کے افاعیل/ تفاعیل ہیں فاعلاتن فاعلاتن فاعلن۔۔۔
جزاک اللہ
 
آپ نے جو اوزان لکھے وہ کسی بحر کے نہیں۔
افاعیل/مفاعیل، فاعلاتن کی کوئی فرع نہیں۔
تجویز ہے کہ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن کر لیں۔
بے وجہ مداخلت پر معافی چاہتا ہوں۔
ایک کولن شاید اس غلط فہمی کا ازالہ کرسکے
افاعیل: فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
 
Top