غزل براہ اصلاح

سر الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل: بھائی اصلاح فرمائیں۔۔۔

افاعیل : مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن

تو بزمِ حسن و عشق سے اپنے قدم اٹھا
کس نے تجھے کہا تھا خوشی چھوڑ غم اٹھا

میں اپنے خاندان میں پہلا ادیب ہوں
تلوار پھینکنی پڑی ہے تب قلم اٹھا

حائل تھا یہ وجود محبت کے درمیان
بازو قلم ہوئے تو وفا کا عَلَم اٹھا

صدقات دے مگر یہ تصاویر مت بنا
خود دار ہے غریب ، نہ دست ستم اٹھا

میں کیا اٹھاتا پہلی ملاقات کا مزا
دل کہہ رہا تھا جو بھی اٹھانا ہے کم اٹھا

عمران تب کٹاؤ کا چہرہ ہوا شکار
رخسار پر جب اشک بہے ، دل سے نم اٹھا

ش
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
تو بزمِ حسن و عشق سے اپنے قدم اٹھا
کس نے تجھے کہا تھا خوشی چھوڑ غم اٹھا
... کسی جگہ سے قدم اٹھانا خلاف محاورہ ہے، کہیں جانے کے لئے قدم اٹھایا جاتا ہے، نکلنے کے لئے نہیں، غم اٹھانا بھی اردو محاورہ نہیں، لیکن یہ فارسی محاورہ اردو شاعری میں اکثر استعمال ہوتا ہے اس لئے جائز ہے

میں اپنے خاندان میں پہلا ادیب ہوں
تلوار پھینکنی پڑی ہے تب قلم اٹھا
.. پڑی ہے کی ی کا اسقاط اچھا نہیں ۔ قلم خود بخود تو نہیں اٹھ گیا ہو گا؟ بہر حال ردیف یہ یہ منتخب کی ہے تو کیا کیا جائے
تلوار پھینک دی ہے تو جا کر قدم اٹھا... شاید بہتر ہو

حائل تھا یہ وجود محبت کے درمیان
بازو قلم ہوئے تو وفا کا عَلَم اٹھا
... درست

صدقات دے مگر یہ تصاویر مت بنا
خود دار ہے غریب ، نہ دست ستم اٹھا
... درست اگرچہ واضح نہیں

میں کیا اٹھاتا پہلی ملاقات کا مزا
دل کہہ رہا تھا جو بھی اٹھانا ہے کم اٹھا
.... درست

عمران تب کٹاؤ کا چہرہ ہوا شکار
رخسار پر جب اشک بہے ، دل سے نم اٹھا
... یہ بھی واضح نہیں ہوا۔
 
سر الف عین بہت شکریہ ، ایک بار پھر دیکھئے۔۔۔

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن

عمران دشت کی طرف اپنے قدم اٹھا
کس نے تجھے کہا تھا خوشی چھوڑ غم اٹھا

میں اپنے خاندان میں پہلا ادیب ہوں
تلوار پھینک دی ہے تو جا کر قلم اٹھا

حائل تھا یہ وجود محبت کے درمیان
بازو قلم ہوئے تو وفا کا عَلَم اٹھا

تشہیر کر کے اپنی سخاوت کی تو نہ یوں
مجھ سے سفید پوش پہ دستِ ستم اٹھا
( اگر ظنزاً دستِ ستم کو دستِ کرم لکھ دیا جائے تو کیسا رہے؟؟ )

میں کیا اٹھاتا پہلی ملاقات کا مزا
دل کہہ رہا تھا جو بھی اٹھانا ہے کم اٹھا

غم میں ترے کٹاؤ کا چہرہ ہوا شکار
رخسار پر جب اشک بہے ، دل سے نم اٹھا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
عمران دشت کی طرف اپنے قدم اٹھا
رواں نہیں لگتا
عمران سمتِ دشت میں..... بہتر ہو گا

مجھ سے سفید پوش پہ دستِ ستم اٹھا
دشت کرم بھی کر سکتے ہو لیکن اس صورت میں اسے واوین میں لکھو تو واضح ہو سکے

آخری شعر واضح نہیں ہے، اس کا لکھ چکا ہوں۔ کٹاؤ سے مراد؟ کیا erosion?
'کٹاؤ کا چہرہ' مشکل پیدا کرتا ہے۔ اگر یہ مراد ہے کہ 'ترے غم سے چہرہ کٹاؤ کا شکار ہوا' تو الفاظ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا۔
باقی درست ہیں اشعار
 
عمران دشت کی طرف اپنے قدم اٹھا
رواں نہیں لگتا
عمران سمتِ دشت میں..... بہتر ہو گا

مجھ سے سفید پوش پہ دستِ ستم اٹھا
دشت کرم بھی کر سکتے ہو لیکن اس صورت میں اسے واوین میں لکھو تو واضح ہو سکے

آخری شعر واضح نہیں ہے، اس کا لکھ چکا ہوں۔ کٹاؤ سے مراد؟ کیا erosion?
'کٹاؤ کا چہرہ' مشکل پیدا کرتا ہے۔ اگر یہ مراد ہے کہ 'ترے غم سے چہرہ کٹاؤ کا شکار ہوا' تو الفاظ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا۔
باقی درست ہیں اشعار
بہت شکریہ سر ، کٹاؤ کی جگہ کوئی متبادل لانےکی کوشش کرتا ہوں۔
 
عمران دشت کی طرف اپنے قدم اٹھا
رواں نہیں لگتا
عمران سمتِ دشت میں..... بہتر ہو گا

مجھ سے سفید پوش پہ دستِ ستم اٹھا
دشت کرم بھی کر سکتے ہو لیکن اس صورت میں اسے واوین میں لکھو تو واضح ہو سکے

آخری شعر واضح نہیں ہے، اس کا لکھ چکا ہوں۔ کٹاؤ سے مراد؟ کیا erosion?
'کٹاؤ کا چہرہ' مشکل پیدا کرتا ہے۔ اگر یہ مراد ہے کہ 'ترے غم سے چہرہ کٹاؤ کا شکار ہوا' تو الفاظ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا۔
باقی درست ہیں اشعار
اگر سر یوں کر دیا جائے تو کیسا رہے۔۔۔

غم میں ہمارے چہرے کی مٹی بھی بہہ گئی
رخسار پر جب اشک بہے ، دل سے نم اٹھا

یا

غم میں ہمارے چہرے کا نقشہ بگڑ گیا
رخسار پر جب اشک بہے ، دل سے نم اٹھا
 
سر الف عین اس غزل مزید بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ اور آخری شعر کا کونسا متبادل زیادہ بہتر ہے؟؟؟

عمران سمتِ دشت میں اپنے قدم اٹھا
خوشیاں تو عارضی ہیں ، خوشی چھوڑ غم اٹھا

میں اپنے خاندان میں پہلا ادیب ہوں
تلوار پھینک دی تبھی جا کر قلم اٹھا

حائل تھا یہ وجود ، محبت کے درمیان
جو سر قلم ہوا تو وفا کا عَلَم اٹھا

تشہیر کر کے اپنی سخاوت کی تو نہ یوں
مجھ سے سفید پوش پہ "دستِ کرم" اٹھا

غم سے ہمارے چہرے کی مٹی بھی بہہ گئی
جب زخمِ دل سے گال پہ بہنے کو نم اٹھا

یا

اشکوں کے ساتھ چہرے کی مٹی بھی بہہ گئی
جب زخمِ دل سے پھوٹ کے آنکھوں میں نم اٹھا

شکریہ
 
آخری تدوین:
Top