غزل بغرض اصلاح

اویس رضا

محفلین
تمام محفلین خصوصاً اساتذہ حضرات سے اصلاح کی گزارش ہے

ہمارے دل کو تماشا بنا کے آپ چلے
کہ درد ہجر کا ہم کو لگا کے آپ چلے

تمہاری دید کی خواہش رہے گی اس دل میں
یہ اور بات ابھی دل دکھا کے آپ چلے

رہیں گے صدیوں تلک تیری یاد میں روشن
چراغ جو سرِ محفل جلا کے آپ چلے

لکھا ہے لوحِ ازل پر بھی یہ فسانہ کیا
یہی فسانہ ہمیں جو سنا کے آپ چلے

نصیب ہو تی نہیں راحتیں محبت میں
یہ بات آج ہمیں کیوں بتا کے آپ چلے

جو آگئے تھے یہاں تھوڑی دیر رک جاتے
یہ کیا ہوا کہ فقط منہ دکھا کے آپ چلے
 
محترم اویس صاحب، آداب۔
محفل میں خوش آمدید۔
اچھی کوشش ہے، مگر اس میں کچھ بنیادی غلطیاں ہیں۔ آپ نو عمر ہیں، سو اگر آگے چل کر اچھا اور پختہ لکھنے کے کافی امکانات ہوسکتے ہیں۔

ہمارے دل کو تماشا بنا کے آپ چلے
کہ درد ہجر کا ہم کو لگا کے آپ چلے
درد لگانا درست نہیں، درد دیا جاتا ہے، اٹھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
روگ لگنا/لگانا درست محاورہ ہے۔
دوسرے مصرعے میں درد کو روگ سے بدل دیں۔

تمہاری دید کی خواہش رہے گی اس دل میں
یہ اور بات ابھی دل دکھا کے آپ چلے

رہیں گے صدیوں تلک تیری یاد میں روشن
چراغ جو سرِ محفل جلا کے آپ چلے
دونوں شعر شترگربہ کا شکار ہیں۔

نصیب ہو تی نہیں راحتیں محبت میں
یہ بات آج ہمیں کیوں بتا کے آپ چلے
یہ شعر معنی و مفہوم کے اعتبار سے مجھے کمزور لگ رہا ہے۔

جو آگئے تھے یہاں تھوڑی دیر رک جاتے
یہ کیا ہوا کہ فقط منہ دکھا کے آپ چلے
پہلے مصرعے میں جو کے بجائے جب زیادہ مناسب رہے گا۔
دوسرے مصرعے کو یوں سوچ کر دیکھیں۔
یہ کیا کہ ایک جھلک بس دکھا کے آپ چلے!

دعاگو،
راحل۔
 

الف عین

لائبریرین
آخری شعر کا دوسرا مصرع اصل ہی خوبصورت تھا، منہ دکھانا اچھا محاورہ تھا بہ نسبت جھلک دکھانے کے، میرے خیال میں اسے قبول کر لیا جائے
شتر گربہ کیا ہے، یہ میں بتا دوں۔ ردیف ہی 'آپ چلے' ہے اس لیے پوری غزل میں کہیں بھی تم یا تو سے تخاطب ہو تو عروضی سقم ہی نہیں، عام بول چال میں بھی اچھا نہیں
 
Top